|

وقتِ اشاعت :   March 26 – 2022

کوئٹہ : سینئر سیاستدان و سابق سینیٹر نوابزادہ حاجی میر لشکری خان رئیسانی نے کہا ہے کہ بلوچستان کے وسائل کسی سیاسی درباری کی ملکیت نہیں ،صوبے کے لوگوں کی ملکیت ہمارا قومی ورثہ ہیں ،جسے آئندہ نسلوں کی ترقی پر خرچ ہونا ہے، بالادست طبقے کے لیے گئے قرضے اتارنے کیلئے نہیں،بلوچستان کے لوگ اپنے قومی وسائل پر اختیار چاہتے ہیں قطعاًریکوڈک کے سودے کو قبول نہیں کریں گے، صوبائی اسمبلی کے اجلاس میں ریکوڈک کے معاملہ پر پراسرار خاموشی نے ریکوڈک کی لوٹ مار میں شامل لوگوں کو بے نقاب کیا ۔ یہ بات انہوںنے گزشتہ روز نجی ٹی وی کو انٹرویو دیتے ہوئے کہی۔

نوابزادہ حاجی میر لشکری خان رئیسانی نے مزید کہا کہ بلوچستان کے وسائل یہاں کے لوگوں کی ملکیت ،ہمارے آبائو اجداد کا ورثہ ہیں جسے آئندہ نسلوں کی ترقی پر خرچ ہونا ہے، بالادست طبقے کے لیے گئے قرضے اتارنے کے لیئے نہیں۔ انہوںنے کہا کہ بلوچستان کے وسائل پر اختیار صوبے کے لوگوںکا ہے صوبے کے لوگ ماضی کے تلخ حقائق کو سامنے رکھ کرریکوڈک کے سودے کو قطعاًقبول نہیں کریں گے،ریکوڈک کی لوٹ مار میں شامل سیاسی جماعتیں اس لوٹ کھسوٹ پر جوا بدہ ہیں ۔ انہوںنے کہا کہ کچھ لوگوں نے نالی، سڑک ، ٹرانسفارمر کی مد میں ملنے والے پیسوں کی خوشی میں پیشگی بلوچستان میں سیاسی افراتفری پیدا کرکے ایک سلیکٹڈ کو ہٹاکر دوسرے کو کرسی پر بیٹھایااور اسلام آباد میں بیٹھ کر ریکوڈک کا سودا کیا ۔

انہوںنے صوبائی اسمبلی کے اجلاس میں ریکوڈک کے معاملہ پر پراسرار خاموشی کو قومی المیہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ بلوچستان اسمبلی کے گزشتہ دو اجلاسوں میں ریکوڈک پر کوئی بات نہیں ہوئی ان اجلاسوں میں صرف فنڈز اور نوکریوں پر بات ہوئی اب بلوچستان کے لوگوں نے فیصلہ کرنا ہے کہ کیا بلوچستان کے وسائل صرف نوکریاں حاصل کرنے کیلئے ہیں یا ہمارا اپنے وسائل پر قومی اختیار ہونا چائیے تاکہ یہ وسائل آئندہ نسلوں کی ترقی و خوشحالی پر خرچ ہوں ۔ انہوںنے کہا کہ کہا جارہا ہے کہ ریکوڈک کا سودا کرکے پاکستان کے قرضے اتارے جائیں گے میرا سوال ہے کہ یہ قرضے بالادست طبقے نے لیکر پاکستان کو ایک سو بلین کا مقروض کیا ہے ،ملک کے اندرونی قرضے 5 ہزار بلین روپے تک پہنچ گئے ہیںوہ حساب دیں یہ قرضے کہاں خرچ ہوئے ہیں ۔ انہوںنے کہا کہ ریکوڈک کو فروخت کرنے والوں نے سی پیک کے نام پر بھی بلوچستان کے لوگوں سے ان کے ساحل کا اختیات بھی چھین لیا ہے آج گوادر کے لوگوں کو پینے کے پانی اور آبائو اجداد سے جاری ان کے روزگار سے انہیں محروم کردیا گیا ہے۔

انہوںنے کہا کہ نواب محمد اسلم رئیسانی نے اپنی وزارت اعلیٰ میں محسوس کیا کہ گوادر میں دیگر صوبوںکے لوگوں کے آنے سے وہاں کے لوگ اقلیت میں تبدیل ہوں گے اور ہمارا اختیار ہماری قومی سرزمین پر نہیں رہے گا اس لیے گوادر کو سرمائی دالخلافہ قرار دیا تاکہ سردیوں میں صوبائی کابینہ کے لوگ وہاں بیٹھ کر انتظامی امور چلائیں ۔ مگرابعد کی حکومت نے اس جانب توجہ نہیں دی۔ انہوںنے کہاکہ سی پیک کے نام پر بلوچستان اور گوادر کے لوگوں کا استحصال کیا جارہا ہے سیندک سے محرومیوں میں اضافہ ہواجبکہ سوئی گیس کو بڑے صوبے کی صنعتوں کا ایندھن بنایا گیا ہے یہ سب کچھ دیکھتے ہوئے یقینا ریکوڈک معاہدہ کا نتیجہ بھی بلوچستان کے عوام کیلئے صفر ہوگا ۔