|

وقتِ اشاعت :   March 26 – 2022

زندگی میں بہت سے آپ کو آپ کے مطابق نہیں ملتے ان کو انہی کے مطابق دیکھنا سمجھنا اور برتنا پڑتا ہے خاص طور پروہ لوگ جو آپ سے ملتے جلتے اٹھتے بیٹھتے بھی ایک خاص فاصلہ رکھتے ہوں اپنے بارے میں جاننے کا موقع نہ دے رہے ہوں پھر انکی شخصیحت کا ایک خاص رکھ رکھاو ہو تو ان کو جانچنے اور پرکھنے میں برسوں لگ جاتے ہیں نامور ادیب دانشور واجہ حکیم بلوچ ان محترم لوگوں میں سیتھے جن کوجاننے میں زمانے لگتے ہیں۔ ان سے تعلق ذاتی یا شخصی سطح پرکم رہا لیکن ان کی تحریریں پڑھنے کا شرف رہا موضوعات کا تنوع موضوع اورزبان و بیان کو بہت اولیت دیتے تھے ان سے تعلق میں جو چیز سب سے زیادہ اچھی لگی وہ ان کا بلوچی زبان و ادب کی ترقی و ترویج کی تگ ودو ہے۔

ان کی تحریریں، کہانیاں، کالم ان کے تجزیے کے خاصے کی تحریریں ہیں اس کے علاوہ حکیم صاحب نے بلوچستان کے مسائل کو اجاگر کرنے کے لیے ایک رائٹر کے طور پر بہت اہم کردار ادا کیا وہ اپنی تحریروں کے حوالے سے سے بہت کم گفتگو کرتے تھے وہ ایک ترتیب کے ساتھ اپنی شخصیت کا خاص انداز سے ایک پرکشش اور پروقار اندازاور احساس کے ساتھ ساتھ جب گفتگو کرتے تو بہت سارے پہلو کھولتے ۔ان کا بلوچی ادب کے حوالے سے ایک نمایاں کردار رہا، وہ اس پر گھنٹوں گفتگو کرتے دوستوں کے معاملے میں حکیم صاحب انتخاب کے قائل تھے اس لیے کئی لوگ ان سے ملتے ہوئے گفتگو میں احتیاط برتتے۔۔۔۔۔عطاشاد کی دوستی اور ان کی ہمراہی نے کئی اعتبار سے انہیں متاثرکیا۔ حکیم صاحب بلوچی میں اپنے منفرد انداز کے ساتھ ساتھ اردو فارسی اور انگریزی زبان پر بھی خاصا عبور رکھتے تھے اس حوالے سے ان کی تحریریں اور کتابیں پڑھی جاسکتی ہیں ۔ یوروکریٹ اہل قلم میں ان کا ایک خاص مقام رہا وہ ملکی سطع پر بلوچی زبان کی نمائندگی کیفرائض بھی انجام دیتے رہے دیگر زبانوں خاص طور پر اردو کے معروف اہل قلم احمد فراز،افتخارعارف،کشورناھید،اور دیگر سے ان کے تعلق کا ایک زمانہ ہے جہاں وہ بلوچی زبان کونمایاں کرنے کا فریضہ ادا کرتے رہے۔
ہم اس ریا کار اور منافق معاشرے کا حصہ ہیں جہاں سچ کا اظہار ہمیں گراں بار اور دل شکن لگتا ہے…..ہم اپنی ذات کے مصنوعی خول میں سے اس لیے نہیں نکلنا چاہیے کہ اسی میں ہمیں اپنی عافیت نظر آتی ہے۔سچ سننا اور سچ بولنا ہم کو گواراہی نہیں کرسکتے کیونکہ جھوٹ کی ملمع سا زی کے خوگر ہوچکے ہیں مگر یہ جہاں سچ کے سودا گروں سے خالی بھی نہیں ہے۔

عبدالحکیم بلوچ بھی اسی پرخارددشت کے راہیوں میں سے ایک ہے، کم گوہ، نرم گفتار، ہر با ت پر اپنی تعریف کرنے والے اور شیخی نہ بکھارنے والے ہیں کہاں اچھے لگتے ہیں؟ میں بھی جب تک ان سے نہیں ملا تھا تو میرا ان کے بارے میں تاثر تھا کہ کہ وہ قدرے مغرور کھردری طبیعت کے مالک ہیں، ہرکسی سے نہیں ملتے اور انہیں اپنے بیوروکریٹ ہونے کا زعم ہے …..ہم جیسوں کو تو وہ گھاس بھی نہیں ڈالتے۔ میں جب 1991ء میں انفارمیشن میں ملازمت کرنے لگا تو کبھی کبھار ہمارے ڈائریکٹر صورت خان مری جو ان کے ساتھی تھے، بہت سے حوالوں سے ان کا تذکرہ کرتے اور ان کی تعریف کرتے ہوئے نہیں تھکتے تھے۔ہم بھی سن لیتے…..ہماری اتنی ادبی معلومات یا قابلیت نہیں تھی کہ ہم از خود حکیم بلوچ صاحب کے بارے میں اپنی رائے دے سکتے۔
وقت گذرنے لگا، سرکاری اور نجی محفلوں میں ان سے ملے تو یہ معلوم ہوا کہ ہماری معلومات حکیم بلوچ صاحب کے بارے میں بہت ہی ناقص اور غلط تھیں۔بحیثیت سیکریٹری ایس اینڈ جی اے ڈی اور بحیثیت سیکریٹری انفارمیشن ان سے جب قربت ہوئی تو معلوم ہوا کہ وہ تو بڑی سادہ، اسٹریٹ فارورڈ اور پڑھے لکھے بیوروکریٹ ہیں جنہیں ادب سے بھی لگائو تھا۔وہ جب بھی کسی موضوع پر بولتے تو ان کی رائے بڑی وزنی اور مبنی بر حقیقت ہوتی ۔ادبی موضوعات پر بولتے تو ان کا انداز ناصحانہ نہ ہوتا۔وہ تول کر بولتے ، ان کے الفاظ اور معانی یکسر نظر انداز نہیں کیے جاسکتے تھے ، ان کی رائے جذباتی اور غیر حقیقی ہونے کی بجائے زمینی حقائق کے قریب تر ہوتی اور یہیں سے ہماری ان سے نیازمندی کا رشتہ جُڑ گیا…..پھر ہمیں پتا چلا کہ وہ عطا شاد کے دوست ہیں اور بحیثیت شاعر، ادیب، تخلیق کار ان کی صلاحیتوں کے معترف بھی ہیں تو وہ ہمیں اور اچھے لگنے لگے۔ہماری تو اچھے آدمی کی پہچان کے حوالے سے ایک ہی کسوٹی ہے کہ جو عطاء شاد کو پسند کرتا ہے یا جسے عطا شاد پسند کرتا ہے وہ معمولی آدمی نہیں ہوسکتا۔

بین الاقوامی ادبی تخلیقات کے مطالعے نے ان کے اندر ایک ٹھرائو وسعت اور گہرائی پیدا کی تھی…..اس لیے وہ جب لکھنے بیٹھ جاتے تو ہمارے اکثر ادیبوں کی طرح اپنی کم مائیگی اور ناسٹیلجیا کارو نارونے کی بجائے اُس معیار کو مدنظر رکھتے جو بین الاقوامی ادب کا خاصہ ہے۔ وہ ادب برائے ادب کی بجائے ادب برائے زندگی کے قائل تھے…..وہ مقدار سے زیادہ معیا ر کے حامی تھے …..وہ کہیں بھی ہمیں جذباتیت اور سیاسی نعرہ بازی کا شکار نظر نہیں آتے تھے….. وہ ادب کو اس کی حقیقی روح کے مطابق برتنا چاہتے تھے …..پھر جب انہوں نے عطاشاد کی شاعری، اُس کے پیغام اور اس کی روح کے حوالے سے ’’شبیہہ شاد‘‘ لکھی تو ہم ان کی صلاحیتوں کے اور معترف ہوگئے۔عطاء شاد کی شاعری میں موجود اصل پیغام تک رسائی ہر کسی کا میدان نہیں لیکن حکیم بلوچ صاحب نے ان کے بارے میں جو لکھا، وہ عطاء شاد کی شخصیت اور فن کو اجاگر کرنے کی لازوال کوشش ہے۔عطا شاد کی شاعری اور شخصیت کے حوالے سے ان کا یہ پہلا اور آخری کام ہے جبکہ آج تک اس انداز سے عطا شاد کے بارے میں لکھا ہی نہیں گیا۔ حکیم بلوچ کی تخلیق و تحقیق کے حوالے مزید کام کی ضرورت ہے تاکہ بلوچستان کا یہ نابغہ روزگار دانشور اپنے اہم اور گہرے موضوعات کے ساتھ سامنے آئے اور بلوچستان کے ادب میں خدمات انجام دینے والے ایک اہم شخسیت کا تذکرہ ہوتا رہے۔