|

وقتِ اشاعت :   March 26 – 2022

بلوچستان ملک کے دیگر صوبوں کی نسبت جدید ترقی سمیت تعلیم ، صحت، روڈ، انفرسٹریکچر و دیگر بنیادی سہولیات کے حوالے سے انتہائی پسماندہ ہے۔ بلوچستان میں خواتین کی ایک بڑی شرح علاج و معالجہ کی عدم سہولیات کے باعث زندگی کی بازی ہار جاتی ہے۔ بلوچستان رقبے کے لحاظ سے ملک کا بڑا صوبہ ہونے کے ساتھ ساتھ صحت کی سہولیات کے حوالے سے انتہائی پستی پر ہے۔ بلوچستان میں خواتین کی اکثریت دوران حمل یا زچگی کے وقت موت کا شکار ہوجاتی ہے کیونکہ بکھری اور کم آبادی کے باعث ہسپتال طویل فاصلوں پر ہیں جہاں پہنچتے پہنچتے خواتین موت کے منہ میں چلی جاتی ہیں۔

بلوچستان کی سوا کروڑ آباد کیلئے ڈاکٹروں کی تعداد انتہائی قلیل ہے اگر بلوچستان کی سوا کروڑ آبادی پر ایک ڈاکٹر 500 لوگوں کا علاج معالجہ کرے تو پھر بھی بلوچستان میں سوا چھ لاکھ ڈاکٹر ہونے چائییں لیکن اس کے باوجود صوبے میں ڈاکٹروں کی تعداد آبادی اور علاج معالجہ کی سہولیات کی نسبت بہت ہی کم ہے۔ بلوچستان میں صحت عامہ کی سہولیات کے لئے سالانہ اربوں روپے کا بجٹ مختص کیا جاتا ہے لیکن اس کے باوجود ہسپتالوں میں نہ تو ڈاکٹرز پورے ہیں اور نہ ہی ان سرکاری ہسپتالوں میں علاج اور ادویات میسر ہیں۔ بلوچستان شاید ملک کا واحد صوبہ ہے جہاں نہ تو میرٹ اور نہ ہی گورننس آپ کو نظر آئے گا بلوچستان کے 33 اضلاع میںہسپتال ہونے کے باوجود عوام ان سے بہتر طور فیض یاب ہونے سے قاصر ہیں جبکہ ظلم یہ ہے کہ سوا کروڑ عوام کو اب نام نہاد حکیموں یا عطائی معالجوں کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا گیا ہے۔

ایسے نان کوالیفائیڈ ڈاکٹروں کی بدولت بلوچستان میں بیماریوں کی شرح دیگر صوبوں کی نسبت بہت زیادہ ہے بلوچستان میں خطرناک امراض میں ہیپاٹائٹس جیسی بیماری ان عطائی ڈاکٹروں کی وقتی علاج اور ریلیف کی بدولت بڑھتی جا رہی ہے۔ پاکستان میں صحت کی دیکھ بھال کرنے والی تنظیمیں شرح پیدائش کو کنٹرول کرنے اور لوگوں میں آگاہی پیدا کرنے کے لیے اقدامات کر رہی ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق پاکستان میں زچگی کی شرح اموات 276 فی 100,000 ہے۔ خاص طور پر بلوچستان میں، ہسپتالوں کی خراب حالت، ڈاکٹروں اور دائیوں کی کم تعداد، کم شرح خواندگی، اور کم عمری کی شادیوں کی وجہ سے زچگی کی شرح اموات 600 فی 100,000 ہے۔ اقوام متحدہ کے پاپولیشن فنڈ (یو این ایف پی اے ) کے مطابق صوبے میں ہر تین گھنٹے میں ایک عورت زچگی کی ایسی پیچیدگیوں کے باعث مر جاتی ہے جن کا علاج کیا جا سکتا ہے۔پاکستان میٹرنل مورٹیلٹی سروے 2019 کے مطابق پاکستان میں زچگی کے دوران اموات کی شرح سب سے زیادہ بلوچستان میں ہے جہاں ایک لاکھ زچگیوں کے دوران 298 مائیں موت کے منہ میں چلی جاتی ہیں۔

قومی سطح پر یہ تناسب ایک لاکھ پیدائشوں پر 187 اموات کا ہے یعنی بلوچستان میں اموات کی یہ شرح باقی ملک سے تقریباً 40 فیصد زائد ہے۔ بلوچستان میں حاملہ خواتین کی پیدائش سے پہلے دیکھ بھال نہ ہونے کے ساتھ ساتھ تربیت یافتہ طبی عملے کی شدید کمی، اور مناسب سہولیات سے آراستہ ہسپتالوں اور صحت کے مراکز تک رسائی میں مشکلات صوبے میں زچگی کے دوران خواتین کی اموات کی اہم وجوہات ہیں۔ بلوچستان کے متعدد اضلاع میں زچگی کے دوران ماؤں کی اموات کی شرح زیادہ ہے جہاں زچہ و بچہ کے لیے جامع دیکھ بھال کی سہولیات یعنی ماہر امراض نسواں، ماہر امراض اطفال سمیت تربیت یافتہ طبی عملہ، لیبر روم، آپریشن تھیٹر اور دیگر ضروری سہولیات موجود نہیں۔

واضح رہے کہ کوئٹہ کے علاوہ بلوچستان کے 33 اضلاع میں سے صرف خضدار، تربت، سبی، جعفرآباد اور حب کے علاوہ چند دیگر سرکاری ہسپتالوں میں سیزرین سیکشن آپریشن ہو رہے ہیں۔ راقم کو محکمہ صحت کے ذرائع سے معلوم ہوا ہے کہ صوبے کے 85 فیصد اضلاع کے سرکاری ہسپتالوں میں گائنا کالوجسٹ یا پھر ایسی سہولیات ہی نہیں جن کی مدد سے زچگی کے دوران پیدا ہونے والی پیچیدگیوں سے نمٹ کر ماؤں کو موت کے منہ میں جانے سے بچایا جا سکے۔ ایسی صورت میں ملک کے تقریباً نصف رقبے پر مشتمل بلوچستان میں حاملہ خواتین کو محفوظ طریقے سے بچے کو جنم دینے کے لیے 200 کلومیٹر تک کا سفر بھی کرنا پڑتا ہے لیکن ان میں سے ایک بڑی تعداد کوئٹہ یا پھر کسی دوسرے بڑے شہر کے ہسپتال پہنچنے سے پہلے ہی دم توڑ جاتی ہیں۔ اگر کسی حاملہ خاتون کو آپریشن کی ضرورت پڑے تو اسے 200 سے 300 کلومیٹر کا سفر طے کر کے کوئٹہ ،خضدار یا پھر کراچی لاڑکانہ ڈیرہ غازی خان و دیگر شہروں میں لے جانا پڑتا ہے۔وفاقی وزارت صحت کی 2017 کی ایک رپورٹ کے مطابق بلوچستان ملک کے ان صوبوں میں شامل ہے جہاں افرادی قوت کی کمی سب سے زیادہ ہے۔بلوچستان میں 10 ہزار کی آبادی کے لیے صرف پانچ ڈاکٹر جبکہ صرف دو نرس یا مڈ وائف ہیں۔ یہ شرح باقی ملک کے مقابلے میں تقریباً نصف ہے۔ باخبرذرائع کے مطابق بلوچستان میں طبی عملے بالخصوص گائنا کولوجسٹ، خواتین ڈاکٹر، اینستھیزسٹ اور تربیت یافتہ دائیوں کی شدید کمی ہے۔

اینستھیزسٹ تو کوئٹہ کے بڑے ہسپتالوں میں بھی پورے نہیں ہیں۔ بجٹ دستاویزات کے مطابق بلوچستان میں محکمہ صحت کے ملازمین کی تعداد 29 ہزار سے زائد ہیں تاہم ان میں گائنا کولوجسٹ کی تعداد تقریباً 50 اور فی میل میڈیکل آفیسرز (لیڈی ڈاکٹر) 700 کے لگ بھگ ہیں۔ان میں سے بھی نصف سے زائد لیڈی ڈاکٹرز کوئٹہ میں تعینات ہیں جبکہ باقی اضلاع میں بڑی تعداد میں یہ آسامیاں خالی بھی ہیں۔صوبے کے دور دراز علاقوں میں خواتین ماہرین ڈاکٹرز رہائش، سکیورٹی اور دوسری بنیادی سہولیات کی عدم موجودگی کے باعث ہی نہیں جاتے ہیں۔
ڈی جی ہیلتھ کے مطابق بلوچستان کے 34 اضلاع میں مجموعی طور پر 1600 سے زائد ہسپتال اور صحت کے مراکز ہیں جن میں نو ٹیچنگ ہسپتال، دو ڈویژنل ہیڈ کوارٹر ہسپتال، 28 ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹر ہسپتال، پانچ تحصیل ہیڈ کوارٹر ہسپتال ،108 رورل ہیلتھ سینٹرز، 784 بنیادی مراکز صحت جبکہ 91 زچہ و بچہ مراکز شامل ہیں۔بلوچستان میں صحت کے شعبے پر سالانہ تقریباً 50 ارب روپے سے زائد خرچ ہونے کے باجود پاکستان سوشل اینڈ لیونگ سٹینڈرنگ میئرمنٹ سروے 2019-20 میں صوبے کے 28 میں 17 اضلاع میں صحت کے اشاریوں کو بد ترین قرار دیا گیا ہے۔

بلوچستان کی تقریباً 80 لاکھ سے زائد آبادی صحت کی ہر سہولت سے محروم ہے۔ بلوچستان کے لوگوں کو علاج کے لیے ہزاروں کلومیٹر کا سفر طے کرکے کوئٹہ کراچی یا سندھ وپنجاب کے نزدیکی شہروں میں جانا پڑتا ہے۔ وہ شوگر، دل، بلڈ بریشر، پولیو، ملیریا، ٹائیفائیڈ، فالج خسرہ، ہیپاٹائٹس بی سی ڈی اور بلخصوص زچگی جیسی بیماریوں میں مبتلا ہیں اور عموماً خواتین مذکورہ وجوہات کی بناء پر بچے کی پیدائش کے دوران ہی مر جاتی ہیں۔ بلوچستان میں صرف چھ بڑے ہسپتال ہیں جو صوبے کے دارالحکومت کوئٹہ میں واقع ہیں۔ کوئٹہ سے باہر ایک بھی اچھا ہسپتال نہیں ہے۔ صوبے میں صحت عامہ کی سنگین صورتحال کا ذمہ دار اور قصور وار کون ہے ؟ سیاستدان،نواب اور سردار، وفاقی حکومت، آمر، یا بلوچستان کے عوام؟ ہر سال سول ہسپتال اور بی ایم سی کے لیے مختص بجٹ ایک ارب روپے سے زائد ہے اور پھر بھی ایکسرے مشینوں کی حالت انتہائی خستہ ہے۔ ہسپتال میں مریضوں کو رکھنے کے لیے اچھے بستر بھی نہیں ہیں اور ڈاکٹر اکثر انہیں علاج کے لیے دیئے گئے ناقص آلات کی شکایت کرتے ہیں۔ تمام اسپتالوں میں 3415 بستر ہیں یعنی 2354 افراد کے لیے ایک بستر۔

مزید یہ کہ ہر 20000 افراد پرمشتمل ایک لیڈی ہیلتھ ورکرہوتا ہے جوکہ صحت کی بنیادی سہولت کیلئے اکائی کی مانند ہے۔ بلوچستان میں صحت کی صورتحال انتہائی ابتر ہے۔بلوچستان کے سابق وزیر اعلیٰ جام کمال خان کے دور میں ڈاکٹروں کی کمی کو پورا کرنے کیلئے ایک ہزارسے زائد ریٹائرڈ اور نوجوان ڈاکٹروں کو اسپتالوں کو بہتر بنانے کیلئے ایڈہاک بنیادوں پر تعینات کر دیا گیا تھا تاکہ بلوچستان کے عوام کو صحت کی بہتر سہولیات فراہم کی جاسکیں۔ مگر محض ایڈہاک بنیادوں پر تقرری سے بلوچستان میں صحت عامہ اور صوبے کے غریب عوام علاج کے بہترسہولیات سے کیا مستفید ہو سکیں گے۔ جبکہ حکومت کی لفاظی اقدامات کے باوجود غریب صوبے کے عوام بالخصوص خواتین بروقت علاج ومعالجہ کی سہولیات سے اب تک کیونکر مستفید نہیں ہو رہے ہیں کیا بلوچستان میں صحت کا نظام اپاہج ہو چکا ہے یا پھر جان بوجھ کر بلوچستان کے عوام کو صحت مند کے بنانے کے بجائے بیمار بلوچستان بنانے کے مشن پر کام کیا جا رہا ہے۔یہی سوال دراصل حکومت کی کارگردگی پرسوالیہ نشان ہے۔