بلوچستان رقبے کے لحاظ سے ملک کا سب سے بڑا صوبہ آبادی میں سے کم اور گرانقدر قدرتی وسائل سے مالا مال ہے بلوچستان میں سونا اور چاندی کے علاوہ کرومائٹس،پرائمٹس سلفر،لوہا،لائم سٹون اور کوہلہ کے بڑے ذخائر موجود ہیں صرف ریکوڈک میں معدنی ذخائر مجموعی طور پر 5.4 ملین ٹن بتائے جاتے ہیں۔سیندک میں 69.1ملین ٹن کاپر اور اور 2.24 ملین اونس سونا موجود ہے اس کے علاوہ کرومائٹ کی 15 سے 20 ہزار ٹن سالانہ پیداوار ہوتی ہے صرف وڈھ میں کرومائیٹ کی پیداوار ایک ہزار سے پانچ ہزار تک ہے جہاں تک لیڈ زنک کا تعلق ہے تو دودر، گنگا اور سر مئی ( لسبیلہ اور خضدار اضلاع)میں مجموعی طور پر 38.66 ملین ٹن لیڈ زنک موجود ہے اسی طرح بلوچستان بڑی مقدار میں کوئلہ بھی پیدا ہوتا ہے مچ،آب گم،خوست،شاہرگ،ہرنانی، سورنیج، ڈیگاڑی سنجدی، دکی اور پیر اسماعیل زیارت میں مجموعی طور پر 262 ملین ٹن کوئلہ موجود ہے ضلع مستونگ میں ایک لاکھ ٹن فلورائٹ موجود ہے لسبیلہ اور خضدار میںبرائٹ کے وسیع ذخائر موجود ہے کل ذخائر 30 ملین ٹن سے زائد ہے
جبکہ سالانہ پیداوار 25 ہزار بتائی جاتی ہے سبی میں اسپین تنگی کے مقام پر جپسم اور اینیڈرائٹ کے ذخائر پائے جاتے ہیں یہ ضلع لورالائی میں چمالنگ بہلال میں بھی موجود ہیں۔صوبے میں ماربل کے ذخائر 12 ملین ٹن سے زیادہ ہیں جن کا تعلق ضلع چاغی سے ہے کوہ سلیمان ضلع چاغی کے علاقے میں سلفر کے ذخائر بھی موجود ہیں سلفر کی سالانہ پیداوار تقریبا 500ٹن بتائی جاتی ہے۔بلوچستان میں معدنیات کے وسیع ذخائر اور خاص طور سے سیندک اور ریکوڈک میں سونا،تانبا اور چاندی کے ذخائر کی موجودگی میں محتاط طور پر کیا جا سکتا ہے کہ ان ذخائر کو سائنسی بنیادوں پر بروئے کار لایا جائے تو نہ صرف پاکستان اور اس کے عوام کی قسمت بدل سکتی ہے جبکہ ملکی معیشت کی بحالی میں بھی بڑی حد تک مدد مل سکتی ہے ریکوڈک ضلع چاغی میں واقع ہے اور اسی میں سیندک میں کاپر اور گولڈ ذخائر بھی موجود ہیں یہ امر باعث افسوس ہے قیمتی معدنی ذخائر کا حامل علاقے آج بھی ملک اور صوبے کے پسماندہ ترین علاقوں میں شمار ہوتا ہے ضلع چاغی کے عوام آج بھی بنیادی سہولتوں سے محروم ہے اور انتہائی غربت اور پسماندگی کا شکار ہیں۔جیولوجیکل سروے آف پاکستان نے 1978ء میں ریکوڈک میں قیمتی معدنی ذخائر کی دریافت کی تھی لیکن 40 سال گزر جانے کے باوجود بھی ان ذخائر سے استفادہ نہیں کیا جاسکا ہے ریکوڈک کا پر گولڈ ذخائر کی کل مالیت کا تخمینہ ٹریلین ڈالرز یا اس سے بھی زیادہ لگایا گیا ہے چلی کی ٹی ٹھیان کمپنی نے ابتدائی طور پر اس منصوبے پر کام کیا تھا لیکن جب اس کمپنی نے مائننگ لائسنس کے لیے درخواست دی تو بعض پرتنازعات پیدا ہوئے جس کے بعد 2011 میں منصوبے پر کام بند ہو گیا ان تنازعات میں ایک مسئلہ یہ بھی تھا کہ ٹی ٹھیان کمپنی ریکوڈک سے نکالے جانے والے میٹرل کو اسی شکل میں گوادر اور پھر اپنے ملک لے جانا چاہتی تھی کیونکہ اس کا اسملٹر یہاں موجود نہیں تھا جب کہ ایسا ہونے کی صورت میں مقامی حکام کو یہ پتہ نہیں چل سکتا کہ نکالے گئے مٹیریل میں مختلف معدنیات کی مقدار کیا ہے واضح رہے کہ سنیدک کا پر گولڈ پروجیکٹ میں چینی کمپنی ایم سی سی نے اپنا سملیٹر یہیں پر لگایا ہوا ہے جس نے کرونا وبا کے دوران چند مہینوں کے تعطل کے بعد دوبارہ کام شروع کر دیا ہے۔بہرحال موجودہ حکومت نے طویل تعطل کے بعد ریکوڈک منصوبے پر کام کے آغاز کے لیے ایک نئے معاہدے پر دستخط کردیئے ہیں ریکوڈک بنیادی طور پر بلوچستان کے عوام کی ملکیت ہے اور ریکوڈک منصوبے پر عمل درآمد کا اولین فائدہ بلوچستان اور اس کے عوام کو ہی ہونا چاہیے آئین میں 18 ویں ترمیم کے تحت معدنی ذخائر کے استعمال میں وفاق اور صوبائی برابر کے حصہّ دار ہیں۔اور اسی تناظر میں ریکوڈک معاہدہ میں پاکستان کے پچاس فیصد حصے میں سے بلوچستان کو 25 فیصد حصہ دیا جارہا ہے اس فارمولے کو زیادہ منصفانہ بنانے کی ضرورت سے انکار نہیں کیا جاسکتا یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے کہ ماضی میں بلوچستان سے نکالنے والی قدرتی گیس کا معاہدہ ہو یا سیندک کاپر گولڈ پراجیکٹ کی بات ہو بلوچستان اور اہلیان بلوچستان کو ان کے جائز حقوق سے محروم رکھا گیا ہے اسی تناظر میں اس مطالبے کو ناجائز قرار نہیں دیا جاسکتا کہ ریکوڈک میں بلوچستان کو اس سے زیادہ حصہ ملنا چاہیے تھا لیکن سابقہ ادوار میں جس طرح کا معاملہ کو مس مینج کیا گیا اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والے زمینی حقائق کو مدنظر رکھا جائے تو موجودہ معاہدہ غینمت نظر آتا ہے۔
وزیراعلی بلوچستان میر عبدالقدوس بزنجو نے کہا کہ ریکوڈک معاہدہ میں پہلی بار عوام کے منتخب نمائندوں اور سیاسی قائدین کو اعتماد میں لیا گیا ہے اور تمام کی مشاورت اور وفاقی حکومت کے تعاون سے موجودہ زمینی حقائق کو مد نظر رکھتے ہوئے بلوچستان اور اس کے عوام کے حق میں بہتر معاہدہ کیا گیا۔ وزیراعلی بلوچستان نے گزشتہ روز وزیراعلیٰ ہاؤس میں سینئر صحافیوں اور ایڈیٹروں سے گفتگو کر رہے تھے انہوں نے بتایا کہ معاہدے کے تحت صوبے کو کام شروع ہونے سے قبل ریئلٹی کی رقم ملے گی اور ایک اندازے کے مطابق بلوچستان کو کام کے آغاز سے قبل 30 سے 40 ارب روپے ملیں گے وزیر اعلیٰ کا کہنا تھا کہ وہ منصوبے میں ملنے والے 25 فیصد حصے کے بجائے اگر ممکن ہوتا 80فیصد لیتے لیکن زمینی عقائد کو بھی مدنظر رکھنا چاہیے عالمی عدالت میں مقدمہ ہارنے کے بعد پاکستان کو اربوں روپے کے جرمانے کا سامنا تھا اور ملک کے کے اثاثوں کی نیلامی کا خدشہ پیدا ہوگیا تھا۔ اس صورتحال کو دیکھتے ہوئے بلوچستان نے 25 فیصد حصے پر رضامندی ظاہر کی لیکن یہ بھی طے پایا گیا کہ پہلے کسی طرح حکومت بلوچستان کا اخراجات میں کوئی حصہ نہیں ہوگا اور اس کی ذمہ داری وفاقی حکومت نے اٹھا لی اس موقع پر اس بات کی بھی وضاحت کی گئی کہ معاہدے کے مطابق 100 سال کے لئے صرف 100 مربع کلومیٹر کا علاقہ بیرونی کمپنی کو دیا جارہا ہے جبکہ دیگر حصے کیلئے حکومت بلوچستان کسی بھی کمپنی سے معاہدے کے لیے آزاد ہوگی بتایا گیا کہ معاہدے پر عملدرآمد کے ساتھ ساتھ متعلقہ کمپنی علاقے کی ترقی کے لئے 30 سے 40 ارب روپے کے پیکیج پر عمل درآمد کرے گی مختلف شعبوں میں صوبے کے نوجوانوں کی تربیت کا بھی اہتمام کیا جائے گا بعض سیاسی رہنماؤں کی طرف سے حکومت پر تنقید کرتے ہوئے کہا جا رہا ہے کہ بلوچستان کے لیے ریکوڈک منصوبے میں 25فیصد کاحصہ کم ہے اور ہمیں کم سے کم 50فیصد حصہ مانگنا چاہیے تھا۔اس میں شبہ نہیں کی رپکوڈک دنیا کے بڑے معدنی ذخائر میں سے ایک ہے اور پاکستان کی آئین اور خاص طور پر اٹھارویں ترمیم کے بعد صوبے میں پیدا ہونے والی معدنیات پر بلوچستان کے عوام کے حق ملکیت سے انکار ممکن نہیں لیکن حقوق کے حصول کی جدوجہد کو حقائق کے تناظر میں دیکھنا اور اپنے مطالبات کو معروضی صورتحال کے مطابق رکھنا بھی ضروری ہے یہ بات بھی اہم ہے کہ حکومت کی کاوشوں کو علاقے کے عوام سے منفی نہیں رکھا گیا اور پہلی بار صوبائی اسمبلی میں تمام سیاسی قیادت کو معاہدے کے حوالے سے بریفنگ دی گئی مذکورہ معاہدے کے نتیجے میں صوبے میں 8 سے 10 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری ہونے کی توقع ہے
اور بتایا جارہاہے کہ دنیا بھر سے کمپنیاں سرمایہ کاری کے لئے رابطہ کر رہی ہیں کسی جاسکتا ہیکہ یہ ایک بڑا خوشگوار اور بولڈ آغاز ہے جس کے آگے بڑھنے اور مزید کامیابیوں کی توقع رکھی جا سکتی ہے۔ریکوڈک دنیا میں سونا اور تانبہ کے بڑا ذخائر میں سے ایک ہے اور اس سے استفادہ کرکے صوبے کی ترقی اور عوام کی خوشحالی کی منزل کی طرف پیش قدمی کی جا سکتی ہے سابقہ حکومتوں نے ریکوڈک منصوبے پر عملدرآمد میں کامیابی حاصل نہیں کی علاوہ ازیں صوبہ کے عوام کا تجربہ ہے کہ صوبہ کے کسی بڑے منصوبے میں انہیں کسی بھی خاطر خواہ حصہ ایسا نہیں ملا ضرورت اس بات کی ہے کہ مذکورہ معاہدے سے زیادہ سے زیادہ استفادہ کرنے کی کوشش کی جائے اور تمام سیاسی جماعتیں صوبے کے مفاد اور عوام کے زیادہ سے زیادہ فائدہ کو یقینی بنانے کے لیے اشتراک اور مشاورت کے عمل کو مستحکم بنائیں اور بہتر پوزیشن حاصل کرنے کے لیے معاملات کو مزید بہتر بنانا ممکن ہوسکتا ہے۔