ملک میں بدلتے سیاسی حالات، وزیراعظم کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک ،حکومت اوراپوزیشن جماعتوں کی جانب سے بازی لے جانے کے دعوئوں کے ساتھ سیاسی جوڑتوڑعروج پر پہنچ گیا ہے، لمحہ بہ لمحہ سرپرائزسامنے آرہے ہیں۔اور اب تک بظاہر اپوزیشن حکو متی جماعت اور اتحادیوں کو توڑ نے میں کامیاب دکھائی دے رہی ہے گوکہ ق لیگ نے پنجاب کی وزارت اعلیٰ پر حکومت کاساتھ دینے کافیصلہ کرلیا مگر ایم کیوایم پاکستان فی الحال کسی حتمی نتیجے پر نہیں پہنچی ہے مگر ملاقاتیںحکومت اوراپوزیشن کے قائدین سے جاری ہیں اور پیشکشیں بھی کی جارہی ہیں ،کسی بھی وقت ایم کیوایم اپنا فیصلہ سنائے گی۔
پیپلزپارٹی کے اہم ذرائع کے مطابق ایم کیوایم ان کے ساتھ آئے گی پیپلزپارٹی اور ایم کیوایم کے درمیان سندھ کے شہری انتظامی معاملات اور گورنر شپ پر معاہدہ حتمی مراحل میں داخل ہوچکا ہے۔ بہرحال ایم کیوایم پاکستان کی جانب سے کوئی واضح بیان سامنے نہیں آیا ہے البتہ یہ گلہ ضرور ایم کیوایم پاکستان کی جانب سے کیاگیا ہے کہ ق لیگ نے مل کر فیصلہ کرنے کا کہاتھا مگر انہوں نے وعدہ وفا نہیں کیا ،اب ہمیں فیصلہ کرنے میں زیادہ آسانی ہوگی۔ اس وقت سب کی نظریں ایم کیوایم پاکستان پر لگی ہوئی ہیں کیونکہ عدم اعتماد کی تحریک کے دن قریب پہنچ چکے ہیں اور سیاسی جماعتوں کی حمایت انتہائی اہمیت رکھتی ہے ایک رکن قومی اسمبلی کی ووٹ بھی بہت قیمتی ہے ۔ بلوچستان کی حکومتی جماعت نے اپوزیشن کی حمایت کا اعلان کردیا ہے۔
گزشتہ روز بلوچستان عوامی پارٹی کے چار ارکان نے وزیراعظم عمران خان کے خلاف تحریک اعتماد پر اپوزیشن کی حمایت کافیصلہ اپوزیشن قائدین کے ساتھ مشترکہ پریس کانفرنس کے دوران کیا۔ اپوزیشن کا ساتھ دینے کے معاملے پر بلوچستان عوامی پارٹی میں بھی پھوٹ پڑ گئی ہے، چار ارکان اپوزیشن جبکہ ایک حکومت کے ساتھ ہے۔دوسری جانب بلوچستان سے تعلق رکھنے والے رکن قومی اسمبلی محمد اسلم بھوتانی نے بھی اپوزیشن کی حمایت کا اعلان کردیا،محمداسلم بھوتانی نے آصف علی زرداری اور بلاول بھٹو زرداری کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہاکہ ساڑھے تین سال تک حکومت کا ساتھ دیا اور حکومت نے بھی ہمارا ساتھ دیا لیکن اب ہماری الیکشن کی طرف نظر ہے۔انہوں نے کہا کہ آصف زرداری کے میرے اوپر بہت احسانات ہیں، آصف زرداری کے ساتھ ہوں، چاہے وہ اپوزیشن میں ہوں یا حکومت میں۔ رکن قومی اسمبلی اسلم بھوتانی نے کہا کہ آصف زرداری جہاں کہیں گے ان کے ساتھ چلیں گے ۔
جہاں آصف زرداری ہوں گے وہاں ان کے ساتھ ہوں گا۔بلوچستان عوامی پارٹی کے خالدمگسی نے تمام تر معاملات کی قیادت کی اور انہوں نے واضح طور پر یہ کہا کہ ماضی میں ن لیگ کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک لائی گئی تو اس وقت کے سیاسی حالات کے پیش نظر فیصلہ کیا ،اب بھی بلوچستان کے وسیع تر مفاد میں ہم نے اپوزیشن کے ساتھ چلنے کافیصلہ کیا ہے۔ بہرحال اس حوالے سے ہم نے پہلے ہی انہی ادارتی سطروں میں بتایا تھا کہ بلوچستان کی حکومت کی ترجیح وفاق میں بننے والی حکومت کے ساتھ ہوگی وہ گھاٹے کا سودانہیں کرے گی اور یہی ہوا۔ اس وقت اپوزیشن اور حکومت کے درمیان ارکان کی تعداد میں کوئی زیادہ واضح فرق نہیں ہے مقابلہ سخت ہے اور کسی بھی وقت اہم فیصلوں سے بازی پلٹ سکتی ہے ۔ فی الحال یہ کہنا کہ حکومت یااپوزیشن کی کامیابی مکمل طور پر نظر آرہی ہے ایسا نہیں ہے کیونکہ سیاسی حالات پل پل بدل رہے ہیں اور یہ سلسلہ چند روز میں مکمل طور پر واضح ہوجائے گا کہ تخت کس کے حصے میں آئے گا ،وفاق سمیت صوبوں میں کس کی حکمرانی ہوگی؟