|

وقتِ اشاعت :   March 31 – 2022

بیرونی سازش اور خط کی اصلیت کیا ہے اس حوالے سے اس وقت مختلف آراء سامنے آرہی ہیں ۔حکومت کا تو یہی مؤقف ہے کہ وزیراعظم کی حکومت کو ختم کرنے کے لیے سازش بیرون ملک رچائی گئی ہے اور عدم اعتماد کی تحریک کا براہ راست تعلق بھی اسی بیرونی سازش سے ہے جس کا ذکر وزیراعظم عمران خان نے گزشتہ دنوں اسلام آباد کے جلسے کے دوران ایک خط کو لہراتے ہوئے کیا تھا کہ یہ ثبوت ہمارے پاس موجود ہے کہ ہمیں خط بھیجا گیا ہے جس میں دھمکیاں ہیں۔ حکومتی حلقوں کی جانب سے یہ بات کی جارہی ہے کہ آزادانہ خارجہ پالیسی سے بیرونی قوتیں خوش نہیں ہیں اور انہوں نے اپوزیشن خاص کر نواز شریف کے ساتھ ملکر یہ سازش تیار کی ہے کہ عمران خان کو فارغ کیاجائے۔ پہلے بھی اس کا ذکر ہوچکا ہے کہ خط کے اندر اصل حقیقت ہے کیا۔

اس کے مندرجات سامنے نہیں لائی گئیں ہیں گزشتہ دنوں سینئر صحافیوں کے ساتھ ملاقات میں بھی انہیں یہ خط نہیں دکھایا گیا جبکہ اپوزیشن نے پارلیمنٹ میں اس خط کو لانے کی بات کی ہے اور حکومت نے الگ اجلاس بلاکر اپوزیشن کو دعوت دی ہے کہ خط کے حوالے سے بریفنگ دی جائے گی جس پر اپوزیشن لیڈر قومی اسمبلی میاں شہباز شریف نے اسمبلی کے باہر میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ اجلاس بلانے سے پانچ منٹ قبل ہی ہمیں دعوت دی گئی تھی جس پر اپوزیشن اتحاد کے لیڈران سے مشاورت کے بعد شرکت نہ کرنے کا فیصلہ کیا اور ہمارا مطالبہ یہی ہے کہ پارلیمنٹ میں اس خط کو لایاجائے اور اس پر بحث کی جائے ۔

بہرحال اب خط کا معاملہ اتنا سیدھا نہیں ہے کیونکہ یہ حساس نوعیت کا معاملہ ہے کہ اگر واقعی اس میں دھمکی آمیز باتیں لکھی گئی ہیں اور پاکستان میں حکومت کی تبدیلی کے حوالے سے باقاعدہ آفیشلی طورپر کہاگیا ہے تو یہ قومی سلامتی کے حوالے سے سنگین مسئلہ ہے کسی کو بھی یہ حق نہیں پہنچتا کہ وہ کسی ملک کے اندرونی معاملات میں مداخلت کرے یہ سنگین جرم ہے مگر سوال یہی پیدا ہوتا ہے کہ واقعی معاملہ یہی ہے ۔گزشتہ روز سابق سفیر عبدالباسط نے میڈیا سے بات چیت کے دوران کہاتھا کہ اسسمنٹ اپنے سفیر کی ہوسکتی ہے اور یہ معمول کے مطابق ہی رہتا ہے کہ کوئی اس میں ایک رائے اپنی سفیر اجلاس کے دوران اخذ کرکے منٹس میں دیتا ہے کہ چند ممالک ہماری پالیسیوں پر یہ رائے رکھتے ہیں جنہیں نوٹ کا حصہ بناکر بھیج دیا جاتا ہے تاکہ موجودہ حکومت اس پر غور کرے کہ ان کے ساتھ تعلقات کو کس طرح سے بہتری کی طرف لے جایا جاسکتا ہے۔ عبدالباسط نے دھمکی کو یکسر مسترد کردیا ہے کہ اس طرح کبھی سفارتکاری کے دوران ممکن ہی نہیں کہ براہ راست خط لکھ کر دھمکی دی جائے مگر حکومت کی جانب سے بارہا یہی باتیں کی جارہی ہیں۔

البتہ اس تمام تر صورتحال پر جو کچھ ہورہا ہے یہ حکومت کی اپنی ذمہ داری پر ہے کہ اگرخط میں براہ راست کسی ملک نے مداخلت سمیت حکومت کی تبدیلی کے حوالے سے کچھ نہیں لکھا ہے اور سفیر کی اپنی اسسٹمنٹ ہے تو اس کے مستقبل میں بہرحال اچھے نتائج مرتب نہیں ہونگے مگر موجودہ حالات میں بعض ممالک اس عمل سے ناخوش ہوتے دکھائی بھی دے رہے ہیں جبکہ امریکہ کی جانب سے یہ کہا گیا ہے کہ پاکستان میں موجودہ سیاسی حالات سے ان کا کوئی تعلق نہیں، صرف معاملات کو دیکھ رہے ہیں یعنی براہ راست تو نہیں مگر اشارے کے طورپر یہ پیغام دیا گیا ہے کہ ہم پر اس طرح کے الزامات نہ لگائے جائیں۔ اگر محض حکومت کوبچانے کے لیے یہ شوشہ چھوڑا گیا ہے تو یقینا اس کے نتائج سامنے آئینگے اس لیے اندرونی سیاسی اختلافات اور معاملات کو اپنے تک محدود رکھا جائے اوراسے عالمی مسئلہ نہ بنایاجائے کیونکہ مستقبل میں اس کے اثرات بھی پڑسکتے ہیں۔