ملک میں آئینی اورسیاسی بحران بدستور اپنی جگہ برقرار ہے جو عدم اعتماد کی تحریک کے روز ووٹنگ کے لیے بلائے گئے اجلاس کے دوران ڈپٹی اسپیکرقومی اسمبلی کی جانب سے رولنگ کے بعدپیدا ہو ہے۔ وزیراعظم کو بھی ڈی نوٹیفائی کردیا گیا ہے جبکہ وزیراعظم کو صدر مملکت کی جانب سے کام جاری رکھنے کا کہا گیا ہے۔
جب تک کہ کوئی نگراں سیٹ اپ نہیں آجاتا۔بہرحال جس وجہ سے یہ تنازعہ اٹھ کھڑا ہوا ہے اور جس بنیاد پر ڈپٹی اسپیکر نے رولنگ دی وہ تمام معاملہ ڈپلومیٹ کیبل کی وجہ سے ہی پیدا ہوا ہے جس میں بقول وزیراعظم عمران خان کے اس میں مداخلت، دھمکی ، حکومت کی تبدیلی اور اپوزیشن کو استعمال کرنے کا معاملہ ہے جو غداری کے مرتکب ہیں ۔یہ سنگین نوعیت کا الزام ہے جس پر سپریم کورٹ نے از خود نوٹس لیا ہے۔
اور اس کی سماعت جاری ہے، تمام فریقین کے دلائل سنے جارہے ہیں اب اس کافیصلہ کب تک متوقع ہے یہ کہنا قبل ازوقت ہوگا مگر جس طرح کی سیاسی صورتحال دیکھنے کو مل رہی ہے ،سیاسی جماعتیں احتجاج کررہی ہیں پی ٹی آئی جشن اور احتجاج دونوں کررہی ہے کہ انہوں نے اپوزیشن کے مبینہ غیرملکی مدد کے ذریعے حکومت کی تبدیلی کے لیے جو کام کرنے جارہے تھے انہیں شکست دی گئی ہے جبکہ وزیراعظم عمران خان سمیت پی ٹی آئی کے قائدین ہر فورم پر یہی بات دہرارہے ہیں کہ منٹس میں سنگین نوعیت کے نوٹ ہیں جب وہ سامنے آئینگے تو اپوزیشن اپنے حلقوں میں بھی عوام کا سامنا نہیں کرپائینگے ۔
بہرحال یہ پہلے بھی دہرایاجاچکا ہے کہ کیبل نوٹ کی تفصیل مکمل طور پر سامنے نہیں آئی ہے عدالت عظمیٰ میں کیس چل رہا ہے وہ اس کیبل کو دیکھ کر جائزہ لے کر کہ واقعی اس میں اس طرح کا معاملہ ہے یا نہیں کیونکہ اپوزیشن نے اس خط کو جعلی قرار دیتے ہوئے سازش قرار دیا ہے کہ وزیراعظم عدم اعتمادکی تحریک سے راہ فرار اختیار کرنے کے لیے یہ تمام ڈرامہ رچایا ہے۔ البتہ یہ مسئلہ معمولی نہیں بلکہ غیر معمولی ہے ایک سو سے زائد ارکان قومی اسمبلی پر غداری کا الزام لگایا گیا ہے اور یہی اپوزیشن عدالت عظمیٰ کے سامنے بات کررہی ہے کہ اس سے سیاسی حالات تو خراب ہونگے مگر ساتھ ہی ملک کے اندر انتشار بھی پیدا ہوسکتا ہے ۔عدالت عظمیٰ کی جانب سے ڈپٹی اسپیکر کی رولنگ کے تمام قانونی اور آئینی پہلوؤں کاجائزہ لیاجارہا ہے۔
سب سے اہم نکتہ رولنگ کے دوران غداری اور مداخلت کا مسئلہ جس کیبل نوٹ کی بنیاد پر دی گئی ہے اپوزیشن نے عدالت عظمیٰ کے سامنے یہ بات بھی رکھی ہے کہ ہمیں بحث میں سنا ہی نہیں گیا اور یکطرفہ طور پر ایک وفاقی وزیر کی قرارداد پر رولنگ دی گئی جو کہ آئین کی خلاف ورزی ہے اس طرح کی رولنگ ڈپٹی اسپیکر دے نہیں سکتے۔ ملک میں اس وقت ایک آئینی بحران موجود ہے اگر جلد اس معاملے کو نمٹایا نہیں گیا تو یقینا حالات کے گھمبیر ہونے کا خدشہ ہے کیونکہ اس وقت نگراں سیٹ اپ کے لیے اپوزیشن نام نہیں دے رہی ہے ان کا یہی مطالبہ ہے کہ پہلے اس گتھی کو سلجھایا جائے جو عدم اعتماد کی تحریک سے جڑا کیبل اور غیرملکی مداخلت ہے۔
اپوزیشن جماعتوں کے بیانات سے واضح ہے کہ وہ نگراں سیٹ کیلئے کوئی نام نہیں دینگے بلکہ سپریم کورٹ کے فیصلے کا انتظار کرینگے اور اس وقت سب کی نظریں بھی اعلیٰ عدلیہ پر لگی ہوئی ہیں اور کیس اہم بھی ہے۔اب دیکھنا یہ ہے کہ کیبل نوٹ اور عدم اعتماد پر رولنگ کے حوالے سے کیا فیصلہ آئے گا اس کے بعد ہی ملک میں سیاسی حالات کے سمت کا پتہ چل جائے گا۔