ڈاکٹر عبدالحئی بلوچ کا تعلق بلو چستان کے علاقے بھاگ کے نزدیک گاؤں چھلگری سے تھا۔وہ 1945 میں پیر بخش کے گھر پیدا ہوئے ۔ڈاکٹر صاحب مری قبیلے کے چھلگری طائفہ سے تعلق رکھتے تھے لیکن انہونے کبھی بھی اپنے قبائلی شناخت کو نمایا ںنہیں کیا اور شروع سے اپنی شناخت بلوچ ہی رکھا۔ڈاکٹر صاحب نے ابتدائی تعلیم اپنے گاؤں اور مزید تعلیم مستونگ سے حاصل کی۔ڈاؤمیڈیکل کالج(اب یونیورسٹی) کراچی سے ایم بی بی ایس کی ڈگری لی۔1970 کے الیکشن میں ڈاکٹر صاحب ایک طالب علم کی حیثیت سے نیشنل عوامی پارٹی کے پلیٹ فارم سے ممبر قومی اسمبلی منتخب ہوئے۔
منتخب ہونے کے بعد جب پہلی بارکراچی پہنچے توریلوے سٹیشن پر بلوچ طلبا نے انکا استقبال کیااور جلوس کی صورت انہیں کالج لایا گیا ۔انکا ممبر قومی اسمبلی منتخب ہونا ’ڈاؤ میڈیکل کالج ‘کے لیئے بڑا اعزاز تھا۔ 1967 میں جب بلوچ سٹوڈنٹس آرگنا ئزیشن کی بنیاد رکھی گئی تو ڈاکٹر صاحب بی ایس او کے پہلے چیرمین چن لیئے گئے۔ڈاکٹر صاحب 1971 میں ڈاکٹر بننے کے بعد سیاست ہی سے منسلک رہے ۔وہ کل وقتی سیاسی اورسماجی کارکن رہے۔سیاست انکا اوڑھنا بچھونا تھا۔وہ جب بھی ملتے ذراسی الیک سلیک کے بعدسیاست پر گفتگو کا آغازہوجاتا۔انکی زندگی میں سیاست کے علاوہ کوئی دوسراکام تھاہی نہیں اور جو بھی ان سے ملتا ان سے صرف سیا سی گفتگو کی امید رکھتا۔
وہ ساری عمر جمہوریت کی بحالی کے لیئے جدوجہدکر تے رہے ۔وہ ہمیشہ کہتے کہ مسا ئل کا حل اور قومی مفاد جمہوریت اور آئین کی بالادستی میں ہے۔وہ بلو چستان میں رائج کردہ ہائبریڈ(hybrid ) جمہوریت کو عوامی نما ئندگی کا راستہ روکنے کی سازش سمجھتے تھے۔ ان جیسی منفرد شخصیت اب بلوچستان میں نہیں رہے۔ انکے خلا کو پر کرنے میں وقت لگے گا۔ معاشی لحاظ سے وہ اکثر تنگ دست ہی رہے ۔انہوں نے سریاب کسٹم پر ایک کلینک’’نیشنل کلینک ‘‘ کے نام سے کھولی جس میں انکے ایک سیاسی رفیق بابو رسول بخش کھوسہ (پیرا میڈک) بیٹھتے تھے جس سے ڈاکٹر صاحب کو کافی مالی مدد ملتی تھی۔انکے گھر اکثر پانچ ،چھ مہمان ہوتے جو اپنے مسائل کے حل کے لیئے ڈاکٹر صاحب کے پاس آتے ۔وہ جب بھی صوبائی سیکریٹریٹ میں تشریف لاتے دس ، پندرہ آدمی اپنے مسائل کے حل کے لیئے ہمیشہ انکے ساتھ ہوتے ۔بلو چستان کی بیورو کریسی انہیں بہت عزت دیتی تھی اور ممکنہ حد تک انکے کہنے پر عمل کرکے غریبوں کی مدد کر تی۔
1974 میں جب ذولفقار علی بھٹو نے نیشنل عوامی پارٹی پر پا بندی لگائی، لیڈرشپ کو گرفتار کرکے غداری کا مقدمہ چلایا اوربلو چستان میں آرمی اپریشن کا آغاز کیاتوخوش قسمتی سے ڈاکٹر صاحب اس مقدمہ سے بچ گئے اور انڈر گراؤنڈ کام کرتے رہے ۔پھر ضیا الحق نے نیپ کی لیڈرشپ کو رہا کردیا۔با ہر آتے ہی لیڈرشپ میں اختلافات سامنے آگئے۔خان عبدالولی خان نے عوامی نیشنل پارٹی اورمیر غوث بخش بزنجو نے پا کستان نیشنل پارٹی کی بنیا د رکھی۔ سردار عطااللہ مینگل علاج کی غرض سے پہلے ہی لندن جا چکے تھے۔ نواب خیر بخش مری پار لیمانی سیاست سے مایوس ہو چکے تھے اور شہید نواب محمد اکبر خان بگٹی سیاسی طور پر گوشہ نشین تھے۔ ڈاکٹر صا حب اپنے دوستوں سمیت میر صاحب کی پارٹی میں شا مل ہو ئے۔لیکن’’ قومی حق خود ارادیت ‘‘کے سوال پر اختلاف بھی تھا۔میر صاحب نے پارٹی منشور میں ’حق خود ارادیت‘ کی شق شامل نہیں کی تھی۔1984 کے پار ٹی الیکشن میں ڈاکٹر صاحب صوبائی صدر کے امید وار ہوئے انکے مقابلہ میں ڈاکٹرعبد الحکیم لہڑی تھے۔ڈاکٹر صاحب کو شکست ہوئی۔اسی دن جب میں ان سے سول ہسپتال میں ملا وہ پریشان دکھا ئی دیئے، انکا کہنا تھا کہ’’ میر صاحب نے مجھے بلڈوز کیا‘‘ ۔اس کے بعد ڈاکٹر صاحب اپنے سا تھیوں سمیت پی این پی سے علیحدہ ہوئے ۔
1987میںبی ایس او کے فارغ دوستوں نے ملکر’ بلو چستان نیشنل یوتھ موومنٹ‘ کی بنیاد رکھی اور ڈاکٹر صا حب اسکے سر براہ چن لیئے گئے۔ اس زمانے میں ڈاکٹر صاحب بلوچ نو جو نوں کے مقبول ترین رہنما تھے۔ بی ایس او اور بی ایس او کی فارغ کیڈر انکے ساتھ تھی ۔نواب خیر بخش مری اور سردارعطااللہ مینگل کی بھی انہیں حمایت حاصل تھی۔ 1988 میںبی این وائی ایم کے دوستوں نے ’ بلوچستان نیشنل موومنٹ ‘ کی بنیاد رکھی اور سردار اختر مینگل اس میں شامل ہوئے، ڈاکٹر صاحب اسکے سربراہ منتخب ہوئے۔ ضیا الحق کے بعدبی این ایم اور نواب اکبر بگٹی نے ملکر ’بلوچستان نیشنل الائنس ‘کے پلیٹ فارم سے الیکشن لڑا اور بی این اے سب سے بڑی پارٹی بنکر ابھری ۔1989 نواب محمد اکبر بگٹی وزیر اعلیٰ بنے اور بی این ایم کے حصے میں سپیکر شپ اور چند وزار تیں آئیں۔سردار اختر مینگل نے وزارت لینے سے انکار کیا۔1990 میںنواب بگٹی نے’ جمہوری وطن پارٹی ‘کی بنیاد رکھی ۔
سرداراخترمینگل اور انکے دوستوںنے حکومت سے علیحدگی کے لیئے بی این ایم پردباؤڈالنا شروع کیا لیکن بی این ایم کی سنٹرل کمیٹی کے فیصلے کے مطابق نواب بگٹی کی حکومت کو گرنے نہیں دیاگیا۔پھر مر کز میں بے نظیر کی حکومت ختم ہوئی اور اسکے ساتھ صوبائی حکو متیں بھی ختم ہو ئیں۔ نئے انتخابات ہوئے بلوچستان سے نواب بگٹی کی جے ڈبلیو پی اور مر کز میں نواز شریف کی پارٹی جیتی۔الیکشن سے پہلے نواز شریف اور نواب بگٹی کے درمیان ایک معاہدہ ہو نے کے با وجود نواب صاحب کوحکومت سازی کا موقع نہیں دیا گیااور مسلم لیگ جو دوسرے نمبر پر تھی کے تاج محمدجمالی وزیر اعلیٰ بن گئے۔اس بار بی این ایم نے نہ تو تاج جمالی اور نہ نواب صاحب کا ساتھ دیا ۔اسی دوران 1994 میں ڈاکٹر صاحب سینٹ کے ممبر بھی منتخب ہوئے ۔نواب بگٹی نے وزیر اعلیٰ کی حیثیت سے پہلی بار صوبے میں بلوچی ،براہوئی اور پشتوزبانوں میں پانچویں جماعت تک تعلیم کا آغاز کر کے ایک تاریخی فیصلہ کیا تھا۔سلیبس تیار ہوا ،ٹیچرز کو ٹر یننگ دی گئی،اور پڑھائی کا بھی آغاز ہوا لیکن تا ج جمالی حکومت نے اس پروگرام کو ترک کیا۔افسوس اس بات کا ہے کہ بلوچ پشتون قوم پرست پارٹیوں ،طلبا تنظیموں ،ادیبوں،شا عروں اور دانشوروں نے مادری زبانوں کی تعلیم ترک کرنے پر ذرا برابر احتجاج نہ کی ۔
اسکے بعد بھی کئی بار ما دری زبانوں کو تعلیمی زبان قرار دینے کی ’نیم دلانہ‘ کوششیں ہو تی رہیں لیکن کا میابی ابھی تک نہ مل سکی۔پھر آ نے والے الیکشن میں قومی اور صوبائی اسمبلی کے سیٹوں کی نامز دگی پر اختلاف کے باعث سردار اختر مینگل اور ایوب جتک نے اپنے سا تھیوں سمیت الگ ہوکربی این ایم مینگل کی بنیاد رکھی جو بعد میں بلو چستان نیشنل پارٹی بنی ۔اسی دوران بی ایس او کے دوسابق چیر مین رازق بگٹی اور حبیب جالب بلوچ جو افغانستان میں تھے، جنہوں نے بی این وائی ایم سے الگ ہو کر’پروگریسویوتھ موومنٹ‘ اوربی ایس او سہب کی بنیادرکھی تھی، کابل سے واپس آئے۔ کہا گیا کہ ضیاء دور میں انکے وارنٹ گر فتاری جاری ہوئے تھے۔
آ تے ہی رازق بگٹی وزیر اعلیٰ تاج محمد جمالی کے سیاسی مشیر مقرر ہوئے اور حبیب جالب نے سردار اختر مینگل کی بی این پی میں شمولیت اختیار کی۔پھر 2003 میں جب میرحا صل خان بزنجو اور میر طاہر خان بزنجو بی این ایم میںشامل ہوئے تو بی این ایم کو نیشنل پارٹی کا نام دے کر اسے ملکی سطح کی پار ٹی قراردیا گیا۔شہید غلام محمد بلوچ نے الگ ہو کر بی این ایم کو بلو چستان کی بجا ئے’ بلوچ نیشنل موومنٹ‘ کا نام دیا ۔نیشنل پارٹی کے کو نسل سیشن میں ڈاکٹر صاحب اور میرحاصل خان بزنجو دونوں صدارت کے امیدوار تھے۔ الیکشن میں ڈاکٹر صاحب ہار گئے۔اب ڈاکٹر صاحب نے نیشنل پارٹی سے علیحدگی اختیار کی اور2018 میں نیشنل ڈیمو کریٹک پارٹی کی بنیا درکھی۔جیسا کہ نام سے ظاہر ہے یہ بھی ملکی سطح کی پار ٹی تھی۔ کچھ عر صہ بعد ڈاکٹر صاحب کی این ڈی پی سے ایک گروپ رشید کریم بلوچ اور اسکے ساتھیوں کی سرکردگی میں علیحدہ ہوا۔
اپنی جدوجہد کے ابتدائی دور میں ڈاکٹر صاحب بلو چستان سطح کی ریڈیکل سیاست کر تے رہے۔ انہوں نے 1973 کے آئین پر صوبائی خود مختاری کو ناکافی سمجھتے ہوئے سردار خیر بخش مری اور محترمہ جو نیفر موسیٰ سے ملکر دستخط نہیں کئے ۔بلو چستان سے میر غوث بخش بزنجو اور جمیعت علماء اسلام کے مولانا عبدالحق نے آئین پر دستخط کیئے تھے۔
دو ہزار کی آخری دہائی اور اسکے بعد انکی سیا سی سوچ میں تبدیلی آئی اور وہ مین سٹریم (main stream ) کی سیاست کرنے لگے۔انکا خیال تھا ملک کے مظلوم طبقوں کو موبلائز ( mobilise) کرکے ملکی سطح پر تبدیلی لائی جاسکتی ہے۔ اسی لیئے انہوں نے بی این ایم سے نیشنل پارٹی اور پھراین ڈی پی کا سفر طے کیا۔ ڈاکٹر صاحب کو جب کسی سیاسی اجتماع میں شرکت کی دعوت دی جاتی وہ کوشش کر کے ضرور پہنچ جاتے۔ایسی ہی ایک اجتماع میں شرکت کے سفر میں 25 فروری 2022 کوحادثے کا شکار ہوئے اور اپنے دوستوں، بہی خواہوں اور پیاروں کو اکیلے چھوڑ خالق حقیقی سے جا ملے۔