سابق وفاقی وزیر اطلاعات اور رہنما پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) فواد چوہدری نے کہا ہے کہ 90 دن سے زیادہ الیکشن کو آگے لے جانے کی کوشش آئین کی سنگین خلاف ورزی ہو گی۔
فواد چوہدری نے اپنی ٹوئٹ میں کہا کہ معیشت 7 ماہ کی سیاسی افراتفری برداشت ہی نہیں کر سکتی۔
انہوں نے کہا کہ الیکشن کمیشن کو اپنے مؤقف پر نظرثانی کرنی چاہیے، 90 دن سے زیادہ الیکشن کو آگے لےجانے کی کوشش آئین کی سنگین خلاف ورزی ہو گی۔
انہوں نے لکھا کہ پاکستان کو سری لنکا نہیں بننے دے سکتے، جلد از جلد سیاسی استحکام کیلئے الیکشن 90 دن کے اندر لازم ہیں۔
اس سے قبل الیکشن کمیشن نے صدر مملکت کے خط کے جواب میں اکتوبر سے قبل الیکشن کے انعقاد سے معذوری کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ ہمیں اکتوبر 2022 میں شفاف انتخابات کے لیے حلقہ بندیاں کرنی ہے، آئین و قانون کے مطابق اس کے لیے کم از کم اضافی 4 ماہ درکار ہیں۔
خط میں کہا گیا تھا کہ بارہا الیکشن کمیشن کے خطوط کے باوجود مردم شماری کی حتمی اشاعت بروقت نہ کی گئی۔
خط میں الیکشن کمیشن کی جانب سے مؤقف اختیار کیا گیا تھا کہ حکومت کی اس تاخیر کی ذمہ داری الیکشن کمیشن پر نہیں ڈالی جاسکتی، عام انتخابات سے متعلق اہم مشاورت کے لیے صدر مملکت اجلاس بلائیں۔
خط میں کہا گیا کہ صاف شفاف اور غیر جانبدارانہ الیکشن کے لیے اضافی 4 ماہ درکار ہیں، اکتوبر میں ہی الیکشن کا انعقاد ممکن ہے۔
واضح رہے کہ صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے الیکشن کمیشن آف پاکستان کو عام انتخابات کے انعقاد کے حوالے سے خط لکھا تھا۔
خط میں الیکشن کمیشن کو آئین پاکستان کے تحت 3 اپریل 2022 کو قومی اسمبلی کی تحلیل کے 90 روز کے اندر الیکشن کرانے کے لیے تاریخ تجویز کرنے کا کہا گیا تھا۔
اس حوالے سے مزید کہا گیا کہ آئین کے آرٹیکل 48 کی شق 5 (اے) اور آرٹیکل 224 کی شق 2 کے تحت صدر مملکت عام انتخابات کرانے کی تاریخ مقرر کریں گے اور یہ تاریخ اسمبلی کی تحلیل کے 90 دن سے زائد نہ ہو۔
خط میں کہا گیا تھا کہ آئین کے تحت عام انتخابات کی تاریخ کے اعلان کے لیے الیکشن ایکٹ 2017 کے تحت الیکشن کمیشن سے مشاورت ضروری ہے۔
ایوان صدر سیکریٹریٹ کی جانب سے یہ خط ایک ایسے وقت میں بھیجا گیا کہ جب الیکشن کمیشن آف پاکستان (ای سی پی) نے مختلف قانونی رکاوٹوں اور طریقہ کار کے چیلنجز کا حوالہ دیتے ہوئے 3 ماہ کے اندر عام انتخابات کرانے سے معذوری کا اظہار کیا تھا۔
ایک سینیئر عہدیدار نے ڈان کو بتایا تھا کہ عام انتخابات کی تیاریوں میں تقریباً 6 ماہ لگیں گے۔
انہوں نے کہا تھا کہ حلقوں کی تازہ حد بندی بالخصوص خیبر پختونخوا میں جہاں 26ویں ترمیم کے تحت نشستوں کی تعداد میں اضافہ کیا گیا تھا اور ضلع و حلقہ وار انتخابی فہرستوں کو ہم آہنگ کرنا بڑے چیلنجز ہیں۔
انہوں نے مزید کہا تھا کہ حلقہ بندی ایک وقت طلب کام ہے جہاں قانون صرف اعتراضات کرنے کے لیے ایک ماہ کا وقت فراہم کرتا ہے جبکہ انہیں حل کرنے کے لیے مزید ایک ماہ کا وقت درکار ہوتا ہے۔
عہدیدار نے کہا تھا کہ اس کام کو مکمل کرنے کے لیے کم از کم تین ماہ درکار ہوں گے، اس کے بعد ووٹرز کی فہرستوں کو اپ ڈیٹ کرنا ایک اور بڑا کام ہوگا۔
ان کا کہنا تھا کہ انتخابی مواد کی خریداری، بیلٹ پیپرز کا انتظام اور پولنگ عملے کا تقرر اور تربیت بھی چیلنجز میں شامل ہیں۔
تاہم الیکشن کمیشن کی جانب سے انتخابات کرانے سے معذوری ظاہر کرنے کی خبر پر تردید سامنے آئی تھی۔
خیال رہے کہ 3 اپریل کو ڈپٹی اسپیکر قومی اسمبلی قاسم سوری نے وزیر اعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد مسترد کردی تھی، جس کے بعد وزیر اعظم نے قومی اسمبلی تحلیل کرنے کا اعلان کردیا تھا۔