جمہوریت بدترین نظامِ حکومت ہے، لیکن اب تک جو نظام آزمائے جاچکے ہیں ان میں سب سے بہترین نظامِ حکومت بھی یہی ہے۔ یہ الفاظ ونسٹن چرچل کے ہیں جو دوسری جنگ عظیم کے دوران اور اسکے بعد برطانوی وزیراعظم رہے۔ تب سے آج تک اس قول میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے۔ جمہوریت کی اچھائیوں اور برائیوں کو جانچنے کے بعد بھی دنیا میں سب سے بہترین نظام حکومت جمہوریت ہی ہے۔ پاکستان میں سیاست میں آنے سے قبل ہر سیاسی جماعت جمہوریت کے گن گاتی ہے۔ خود کو جمہوریت کا علمبردار کہتی ہے جمہوریت کی خاطر دی گئی قربانیوں پر فخر کرتی ہے۔ اقتدار پاکر ہی جمہوریت پر حملہ آور ہو جاتی ہے۔ پاکستان میں یہ پہلی بار نہیں ہورہا کہ آئین کو توڑا گیا ہے۔
اس میں کوئی حیرانگی کی بات نہیں کیوں کہ پاکستان میں جمہوریت کا تعارف باقی ممالک سے خاصا مختلف ہے جو کئی دہائیوں سے چلتا آرہا ہے۔ اقوام متحدہ جمہوریت کی تعریف یوں کرتی ہے کہ یہ خود میں ایک منزل نہیں بلکہ مسلسل سفر کا نام ہے جو افراد اور اقوام کو معاشی اور سماجی ترقی کی راہ پر لے جاتا ہے، اور بنیادی حقوق اور آزادیوں کا احترام سکھاتا ہے۔ اس کے برعکس پاکستان میں انتخابات کے انعقاد کو جمہوریت سمجھا اور مانا جاتا ہے۔ سویلین حکومتیں انتخابات میں اپنی جیت کی طاقت پر ہر قسم کے غیر آئینی اقدامات کرتی آرہی ہیں۔ ماضی میں سیاست دان ووٹ پاکستانی عوام سے مانگتے اور حکومت غیر ملکی قوتوں سے۔ اور اب صورتحال یہ کہ عمران نیازی اپنی حکومت جاتے دیکھ کر اس نے اسے غیر ملکی سازش قرار دینے میں کوئی دریغ نہیں کیا۔ جمہوریت کوکھینچ کھانچکر آج اس مقام پر لے آئے ہیں کہ اب جمہوریت کو بچالو یا اسے خدا حافظ کہہ لو والا معاملہ بن چکا ہے۔
عمران نیازی نے وہی کچھ کیا جو ایک سپورٹس مین کھیل کے میدان میں کرتاہے لیکن سیاست کو کھیل سمجھ کر اس نے بڑی بھول کردی۔ اب جو اس کا انجام ہوگا وہ ملکی تاریخ میں شاید کسی قانون شکن کا نہ ہو۔ سپریم کورٹ کا فیصلہ آنے سے قبل یہ کہنا مشکل ہوگا لیکن فیصلہ خواہ الیکشن کے حق میں تو عمران نیازی کا انجام وہی ہوگا جو عدم اعتماد میں ہونا تھا۔ جب حکومت کو اپنی شکست پکی لگی ہو تو اس کے پاس اور کوئی اور راستہ تھا ہی نہیں سوائے ہار قبول کرکے باعزت طریقے سے گھرجانے کے اور اسمبلیاں تحلیل کرنے کے۔
جنرل ایوب خان اپنی آپ بیتی فرینڈز ناٹ ماسٹرز میں لکھتے ہیں:’میں پانچ اکتوبر کو کراچی پہنچا اور سیدھا جنرل سکندر مرزا سے ملنے گیا۔ وہ لان میں بیٹھے ہوئے تھے۔ تلخ، متفکر اور مایوس۔ میں نے پوچھا۔
‘کیا آپ نے اچھی طرح سوچ بچار کر لیا ہے سر؟
‘ہاں۔’
‘کیا اس کے سوا کوئی اور چارہ نہیں؟’
‘نہیں۔ اس کے سوا کوئی اور چارہ نہیں۔’
‘میں نے سوچا کہ کتنی بدقسمتی کی بات ہے کہ حالات ایسے موڑ تک پہنچ گئے ہیں کہ یہ سخت قدم اٹھانا پڑ رہا ہے۔ لیکن اس سے کوئی مفر نہیں تھا۔ یہ ملک بچانے کی آخری کوشش تھی۔’
اس گفتگو کے دو دن بعد سات اور آٹھ اکتوبر 1958 کی درمیانی شب پاکستان کے پہلے صدر (جنرل) اسکندر مرزا نے آئین معطل، اسمبلیاں تحلیل اور سیاسی جماعتیں کالعدم قرار دے کر ملک کی تاریخ کا پہلا مارشل لاء لگا دیا اور اس وقت کے آرمی چیف ایوب خان کو مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر مقرر کر دیا۔
‘میں پچھلے کئی دنوں سے شدید تشویش کے عالم میں دیکھ رہا ہوں کہ ملک میں طاقت کی بے رحم رسہ کشی جاری ہے، ہمارے محبِ وطن، سادہ، محنتی اور ایمان دار عوام کے استحصال کا بازار گرم ہے، رکھ رکھاؤ کا فقدان ہے اور اسلام کو سیاسی مقاصد کے لیے آلہ کار بنا دیا گیا ہے۔
‘سیاسی جماعتوں کی ذہنیت اس درجہ گر چکی ہے کہ مجھے یقین نہیں رہا کہ انتخابات سے موجودہ داخلی انتشار بہتر ہو گا اور ہم ایسی مستحکم حکومت بنا پائیں گے جو ہمیں آج درپیش لاتعداد اور پیچیدہ مسائل حل کر کے دے سکے گی۔ ہمارے لیے چاند سے نئے لوگ نہیں آئیں گے۔یہی لوگ جنھوں نے پاکستان کو تباہی کے دہانے تک پہنچا دیا ہے، اپنے مقاصد کے لیے انتخابات میں بھی دھاندلی سے باز نہیں آئیں گے۔۔۔ یہ لوگ واپس آ کر بھی وہی ہتھکنڈے استعمال کریں گے جنھیں استعمال کر کے انھوں نے جمہوریت کو مذاق بنا کر رکھ دیا ہے۔