اسی ایک ہی سفر نے مجھے جھنجوڑ کر رکھ دیا کہ اس چھوٹی سی فانی زندگی میں احساس کے بغیر جینا اور پھر یوں مرنا جیسے پیدا ہی نہیں ہوئے تھے ایک انسان کو زیب نہیں دیتا۔
اسی سفر نے مجھے سکھایا کہ کیا میں انسانوں کے زمرے میں آتا بھی ہوں یا نہیں، چلیں کہنے کو تو سب انسان ہی ہے مگر کیا خدا کی کہی ہوئی اشرف المخلوقات کہلانے والے مخلوقات کی سانچے میں بھی ڈھل سکتا ہوں۔ کیا میں بھی اشرف المخلوقات ہونے کا دعویٰ کر سکتا ہوں؟
شاید اسی سفر نے مجھے مجھ سے ملانے کی ایک کامیاب کوشش کی ہے۔
یہ سفر ایک عام سفر نہیں تھا۔ ایک ٹریننگ تھی
پھوٹ پھوٹ کر احساس بھرنے والی ٹریننگ، زندگی بدلنے والی ٹریننگ اور شور کو آواز میں اور انہی آوازوں کو غزل، شاعری اور موسیقی میں بدلنے والی ٹریننگ۔ تعجب کی بات یہ کہ ہر لمحہ ہر گھڑی حیران کردینے والی پراسرار لمحات ہوا کرتے تھے۔ اسی ٹریننگ پر میرے سفر کا آغاز دس دن پہلے ہو جاتی ہے جو شاید زندگی بھر ختم ہونے کا نام نہ لیں۔
مانسہرہ اور سرن ویلے کی خوبصورت وادیوں میں جہاں چاروں طرف خوبصورت پہاڑ فخر سے سر اونچا کیے ہوئے ہیں تو وہی اپنے سینے پر ہزاروں زندگیوں کو بھی زندگی بخش رہے ہیں کہ بلند وبالا صنوبر اور دوسرے درختوں کی جم غفیر نے ان پہاڑوں کو کتنا خوبصورت بنایا ہوا ہے۔ ان گھنے جنگلات اور سبزہ زاروں میں چھپی پہاڑوں نے مجھے سکھایا کہ یقیناً دوسروں کا بوجھ اٹھانے والے بہت بلند مرتبے پر فائز اور بہت خوبصورت زندگی کے مالک ہوتے ہیں۔ کاش ہم انسان بھی انسانوں کے بوجھ اٹھا اٹھا کر اس خوبصورتی کو اپنا لیتے۔
پہاڑوں کے بیچ بہتا ہوا جھیل، جو شور نہیں بلکہ دنیا و جہاں کی داستان لیئے یوں بہہ رہا تھا جیسے اسے کسی رکاوٹ، مشکل اور کھٹن راستہ یا راستے میں پڑی سخت گیر پتھر کا پرواہ ہی نہ ہو۔
اپنا راستہ بنا کر اپنی منزل تک آب و تاب سے رواں دواں۔ ہوا کی چیخ سننے کو ملی جو اپنے اردگرد انسانوں سے چیخ چیخ کر کہہ رہا تھا کہ میں کوئی عام سی شور نہیں جسے سنا نہ جائے، بلکہ ایک داستان ہوں آپ جیسے انسانوں کی محبت، نفرت، عروج و زوال اور حالات زندگی کی۔ مجھے صرف سنے نہیں سمجھے بھی!
یقیناً ہوا اور آپکی اندر کی شور ایک شور نہیں آواز ہے جسے نہ سننا انسان کی فطری غلطیوں میں سے ایک غلطی ہے مگر یاد رہے غلطیاں مٹنے کے قابل ہوتے ہیں!
فطرت سے مکالمہ، بات چیت اور یاریاں کرنا کوئی ان وادیوں میں بسے لوگوں سے سیکھے جن کو فطرت کی سنگت نے دنیا کے حسین لوگوں سے بھی حسین بنایا ہے۔
وہاں کی پرسکون، پر کیف اور نزاکت بھری فضاں نے یہی سمجھایا کہ اپنے آپ کو، فطرت کو اور اپنے اردگرد موجود انسانوں سمیت تمام اشیاء کو سننے اور سمجھنے کی کوشش کریں تو زندگی پرسکون بن جاتی ہے۔
امن قائم ہوگی
آپ کے اندر بھی باہر بھی
امن،یقین اور عمل
یہی مقصد حیات لے کر سر عبدالصمدخان، سر عصم صاحب، میڈم شاکرہ بنت شاکر، مشاہد بھائی اور تمام ہی ٹیم ایک ایسی خدمت سر انجام دیں دے رہیں ہیں جو شاید ہزاروں زندگیوں کو بدل کر رکھ دیں۔
یقین کریں کہ
یقین کے ساتھ
امن کے راہی
عمل ہے لائیں
امن ہے لائیں۔
انہوں نے کچھ بھی تو نہیں بس احساس کی مادہ کو لوگوں میں انڈیلنا شروع کردیا ییں، انہوں نے کچھ نہیں تو محسوس کرنا سکھایا کہ اپنا اور دوسروں کا درد غم خوشی، اپنا آپ، فطرت اور فطرت سے جڑی چیزوں کو کیسے محسوس کیا جائے۔
یقین کریں جس نے محسوس کرنا شروع کیا اس نے اپنا مقصدِ حیات پا لیا۔
بلاخر اس خوبصورت سفر کا اختتام رنگین اور آرزوں مندانہ آنسوؤں پر ہوتا ہے جو یوتھ امپیکٹ ٹیم (youth impact team) کیلئے ہزاروں دعائیں اور تشکّر لئیے واپس مڑ جاتے ہیں کہ جنہوں نے ہم کو اپنے آپ سے روشناس کرایا، چار دن کی زندگی کو چار گھڑی کی بنا کر سمجھانے کی کوشش کی کہ واقعی زندگی بہت مختصر، پراسرار کٹھن سخت مگر خوبصورت بھی ہے، زندگی ایک خالی اور سفید صفحہ ہے جسے چاہو تو پھولوں یا کانٹوں سیبھر دو۔ یاد رہیں وہ پھول اور کانٹے صرف دوسروں کیلئے نہیں آپ کیلئے بھی ہونگے جو آپ نے اپنے کندھوں پر لدا ہوا ہوگا۔
اسی ٹیم نے یہ سمجھانے کی کوشش کی کہ اپنا آپ پہچانوں، آپ جیسا کوئی نہیں جہاں میں، آگے بڑھو اور بڑھتے رہو تمہاری حصے کی کامیابی تمھارا منتظر ہے خدارا اسے سدا منتظر چھوڑ کر اس دیار فانی سے کوچ مت کر جانا!
انہی خوبصورت لوگوں نے ہمیں سمجھانے کی کوشش کی کہ جو سیکھا اسے صرف ایک ہی قوم “انسانیت” کی بھلائی کے لیے کام میں لاکر یقین عمل امن اور اتحاد پیدا کرنا!