|

وقتِ اشاعت :   April 13 – 2022

یوکرین کے صدر ولودیمیر زیلنسکی نے کہا ہے کہ تفتیش کاروں کو روسی فوجیوں کے زیر قبضہ علاقوں میں ’ریب کے سیکڑوں واقعات‘ کی اطلاعات موصول ہوئی ہیں، ان علاقوں میں چھوٹے بچوں کو بھی جنسی استحصال کا نشانہ بنایا گیا۔

ڈان اخبار میں شائع غیر ملکی خبر رساں ادارے ’اے ایف پی‘ کی رپورٹ کے مطابق روسی فوجیوں پر ملک بھر میں بڑے پیمانے پر مظالم کے الزامات لگائے گئے ہیں اور ان علاقوں میں خاص طور پر کیف کے گرد واقع علاقے شامل ہیں جہاں سے اب وہ پیچھے ہٹ چکے ہیں۔

تاہم ماسکو کی جانب سے ان الزامات کی تردید کی گئی ہے۔

ولودیمیر زیلنسکی نے ویڈیو لنک کے ذریعے گفتگو کرتے ہوئے لیتھوینین قانون سازوں کا بتایا کہ ’قابضین سے آزاد کرائے گئے علاقوں میں روس کے جنگی جرائم کی تفتیش جاری ہے‘۔

انہوں نے کہا کہ ’تقریباً ہر روز نئی اجتماعی قبریں مل رہی ہیں‘۔

ان کا کہنا تھا کہ ’لاکھوں متاثرین کے شواہد جمع کیے جارہے ہیں، تشدد کے ہزاروں کیسز سامنے آئے ہیں، نالوں اور گوداموں سے لاشیں برآمد ہو رہی ہیں‘۔

ریپ کے سیکڑوں واقعات ریکارڈ کیے گئے ہیں، جن میں کم عمر لڑکیاں اور بچے شامل ہیں، یہاں تک کہ ان میں ایک چھوٹی بچی بھی شامل ہے۔

لیتھوینیا کے صدر گیتاناس نوسیدا نے اس آخری دعوے کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ ’اس سے بڑے ہولناک اقدام کا تصور کرنا محض ناممکن ہے‘۔

متاثرین کے ساتھ پیش آنے والا رویہ دستاویزی ہونے کے بعد، انسانی حقوق کی تنظیموں کا کہنا ہے کہ یوکرین میں عصمت دری کو ’جنگ کے ہتھیار‘ کے طور پر استعمال کیا جا رہا ہے۔

غیر ملکی خبر رساں ادارے ’اے ایف پی‘ سے گفتگو کرتے ہوئے ایک یوکرینی خاتون کا کہنا تھا کہ ’دو روسی فوجیوں نے یہ معلوم ہونے پر کہ میرا شوہر ایک فوجی ہے مجھے جنسی استحصال کا نشانہ بنایا‘۔

بڑے حملے کی تیاری

دریں اثنا روسی فوج کی جانب سے گزشتہ روز سے بندرگاہ والے شہر ماریوپول کو حاصل کرنے کی مہم میں شدت سامنے آئی ہے۔

ماسکو کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ وہ مقبوضہ کریمیا کو روسی حمایت یافتہ علیحدگی پسند علاقوں ڈونباس میں ڈونیٹسک اور لوگانسک سے جوڑنے کی کوشش کر رہا ہے اور انہوں نے اسٹریٹیجک طور پر واقع شہر کا محاصرہ کرلیا ہے، یہ شہر کبھی 4 لاکھ سے زائد افراد کا گھر تھا۔

یوکرین اور روس کے درمیان ہونے والی جنگ ساتویں ہفتے میں داخل ہونے کے بعد یوکرین کی فوج نے روسی جارحیت کے خلاف ماریوپول کا دفاع کرنے کے لیے شدت سے جنگ لڑی۔

یوکرین کی بری فوج نے ٹیلی گرام پر لکھا کہ ’دفاعی افواج کی اکائیوں کے ساتھ رابطے میں ہیں جو شہر کو بہادری کے ساتھ تھامے ہوئے ہیں‘۔

تاہم روسی وزارت دفاع نے کہا کہ ان کی فوج نے شہر کے شمالی ضلع میں ایک فیکٹری پر ’فضائی حملوں اور توپ خانے سے فائر‘ کے ذریعے محاصرہ توڑنے کی کوشش کو ناکام بنا دیا ہے۔

رات گئے خطاب میں یوکرینی صدر ولودیمیر زیلنسکی نے شہر کے مضبوط دفاع کے لیے اتحادیوں سے مزید ہتھیاروں کی درخواست کی۔

ان کا کہنا تھا کہ ’ہمیں اتنا اسلحہ نہیں مل رہا ہے جتنا اس جنگ کو جلد ختم کرنے، ہماری سرزمین پر دشمن کو مکمل طور پر تباہ کرنے اور خاص طور پر ماریوپول سے رکاوٹیں ختم کرنے کے لیے ضروری ہے۔

ولودیمیر زیلنسکی نے کہا کہ ان کا خیال ہے کہ روس نے شہر میں ’کم از کم لاکھوں افراد‘ کو ہلاک کیا ہے۔

لڑائی کے فوری خاتمے کی امید کے ساتھ روسی صدر ولادیمیر پیوٹن نے عزم ظاہر کیا کہ ماسکو، جنگ بندی کے لیے بار بار کیے جانے والے بین الاقوامی مطالبات کو رد کرتے ہوئے اپنے ٹائم ٹیبل کے مطابق اپنے فوجی آپریشن کے ساتھ آگے بڑھے گا۔

بیلاروسی صدر الیگزینڈر لوکاشینکو کے ہمراہ ٹیلی ویژن پر نشر کی جانے والی پریس کانفرنس کے دوران روسی صدر ولادیمیر پیوٹن کا کہنا تھا کہ ’ہمارا کام تمام مقرر کردہ اہداف کو کم سے کم نقصانات کے ساتھ پورا کرنا اور انہیں حاصل کرنا ہے‘۔

انہوں نے کہا کہ ’دراصل ہم جنرل اسٹاف کے تجویز کردہ منصوبے کے مطابق تال میل کے ساتھ سکون سے کام کریں گے‘۔

ولادیمیر پیوٹن نے ماسکو کی افواج کے انخلا کے بعد یوکرین کے دارالحکومت کیف کے باہر بوچا قصبے میں سیکڑوں شہریوں کی لاشیں برآمد ہونے کی ’جعلی‘ رپورٹس کو بھی مسترد کردیا۔

اے ایف پی سمیت دیگر صحافیوں کی جانب سے لی گئی تصاویر میں بوچا کی سڑکوں پر لاشیں دیکھی گئیں، جس نے دنیا بھر میں غم و غصے کو جنم دیا اور ممکنہ جنگی جرائم کی تحقیقات کا مطالبہ کیا۔

بوچا کے میئر اناٹولی فیڈوروک نے کہا کہ اب تک 400 سے زیادہ افراد مردہ پائے گئے ہیں اور 25 خواتین کے ساتھ زیادتی کی اطلاع موصول ہوئی ہے، بوچا کا قصبہ لڑائی سے بھاگنے والے باشندوں کی واپسی کی تیاری کر رہا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ’لوگوں کو اپنے گھروں میں جو کچھ ملے گا وہ چونکا دینے والا ہے اور وہ روسی قابضین کو طویل عرصے تک یاد رکھیں گے۔

یوکرین کی سرحدی افواج کا کہنا ہے کہ جنگ کے آغاز کے بعد سے بیرون ملک منتقل ہونے والے 8 لاکھ 70 ہزار سے زائد افراد واپس وطن آچکے ہیں، ان میں خواتین اور بچوں کی بڑھتی ہوئی تعداد بھی شامل ہے۔