سیاسی طور پر پختگی ایک رہنما کے لئے انتہائی ضروری ہے۔ نومولود سیاست دان اگر سچا ہو، دیانت دار ہو تو بھی اس کا عوام میں اثر و رسوخ بڑ ھانے کے لئے ایک لمبا عرصہ درکار ہوتاہے تا آنکہ لوگوں میں اعتماد بحال ہو۔ اسی درمیان ایک لیڈر کا اصل امتحان شروع ہوتا ہے کہ وہ لوگوں میں اپنا لوہا منوائے۔ عمران نیازی اسی پروسیس سے گزرکر ایک اچھا لیڈر بن سکتے تھے لیکن اس نے اپنے سیاسی کیئریر کے آغاز میں ہی میں اپنا نام آئین شکنوں کے ساتھ لکھوادیا۔
شریف خاندان چور ڈاکو صحیح لیکن وہ پختہ سیاست دان ہیں۔ اس لئے انہوں نے آتے ہی تنخواہوں میں اضافے کا اعلان کردیا چونکہ انہیں معلوم ہے کہ پیسے کہاں سے لانے اور کہاں استعمال کرنے ہیں۔ ایک ناتجربہ کار مکینک کو اگر کوئی مشینری بنوانے دیا جائے جس میں اس کا پہلا کام یہی ہو تو یقیناً وہ اسکی حالت بگاڑ کر رکھ دے گا۔ تاوقت کہ وہ شاگرد بن کر اس ہنر میں مہارت حاصل نہ کرلے۔ سیاست میں آنے سے قبل اسپورٹس مین سے ہٹ کر سیاسی ذہنیت اپنانا ضروری تھا چونکہ یہ ذہن ایک اسپورٹ مین کا ہی ہوسکتا ہے کہ عدم اعتماد میں ایک اچھی خاصی تعداد اپوزیشن کے پاس ہوتے ہوئے بھی بیٹھ کر یہ سوچنا کہ میں نے ہار نہیں ماننا میں نے آخری گیند تک لڑنا ہے یہ ایک اسپورٹ مین کی سوچ ہوسکتی ہے لیکن ایک سیاستدان کبھی ایسا نہیں سوچ سکتا۔ عمران خان اسی سوچ کے باعث بڑے بے آبرو ہوکر نکلے۔
انسانی فطرت ہے کہ انہیں سرپرائز کا کہا جائے تو وہ بہت مسرت محسوس کرتی ہے جب تک وہ سرپرائز اسے نہ دکھایا جائے یا وہ اسے کھول کر نہ دیکھ لے۔ انسان کو وہی کچھ کہنا چاہئے جس پر عمل کیا جاسکتا ہو، نہیں تو بعد میں انسان جذباتی طور پر ٹوٹ جاتا ہے۔ یعنی وعدے اور باتیں وہی کرنے چاہئیں جن پر آپ عمل پیرا ہوسکتے ہوں۔ عمران نیازی سے لوگوں نے ان کے وعدوں کے مطابق توقعات وابستہ کی ہوئی تھیں۔ جن پر عمل نہ کرنے پر لوگ جذباتی طور پر ٹوٹ گئے۔
لوگوں کی توقعات شریف خاندان سے اتنی نہیں تھیں جتنا عمران نیازی سے کیونکہ شریف خاندان نے کبھی ایسی باتیں نہیں کہیں کہ جب مہنگائی آتی ہے تو سمجھ لو حکمران چور ہے۔ جب ڈالر بلندی کی سطح پر جاتی ہے تو سمجھ لو حکمران چور ہیں۔ لیکن شریف خاندان نے کبھی ایسے وعدے نہیں کئے جو وہ پورا نہیں کرسکتے۔ ہاں عمران خان کو آزمانے کے بعد اب لوگوں کا شریف خاندان توقعات پہلے سے بڑھ بندھ چکی ہیں خاص کر غریب طبقے کا جو مہنگائی سے تنگ آچکے ہیں۔
عمران خان کو پتا ہونا چاہئے تھا کہ باتیں اور وعدے کم جبکہ عملی کارکردگی زیادہ دکھانے سے ہی لوگوں کے دل جیتے جاسکتے ہیں، اتنی بڑی بڑی باتیں نہیں کرنی چاہئیں جن پر بعد میں عمل کرنا ممکن نہ ہو۔ عمران خان کو ہمنوا بھی ایسے ملے جو ہوائی باتیں کرنے کے عادی ہیں جن سے عوام کا بھروسہ اٹھ چکا تھا۔ ن لیگی نمائندوں کا کام کتنا ہی صفر ہو لیکن باتیں سنجیدگی سے کرتے ہیں اور اخلاقیات کا مظاہرہ کرتے ہیں جو عوام کے دلوں میں گھر بنالینے کے لئے کافی ہے۔ اس لئے جناب یہاں تو کمپنی یہی چلے گی۔