بلوچستان سے فریادیں روز اول کی طرح آج بھی جاری ہیں۔ایک ہفتہ پہلے اندھیری رات میں آئین کی جیت کا جشن منانے والے آج ذرا رخ اس طرف بھی کرلیں کہ ان کو معلوم پڑے کہ بلوچستان میں سوئے ہوئے آئین کو جگانے والا کوئی نہیں ہے۔نظریہ ضرورت دفن، امریکی سازش جیسے تماشوں سے گزرتے ہوئے ایک نئے حکمران کوپاکستان کے اقتدار کا کمان سو نپا گیا ہے۔
ایک ہی نظام کے بدلتے ہوئے چہروں کو مبارکباد دینے والے ذرا رخ بلوچستان کی طرف بھی کرلیں۔بلوچستان کے لوگوں کو عموماً سیاسی تاریخ یاد رہتی ہے اور اس میں زیادہ دلچسپی لیتے ہیں کیونکہ ہر دور میں بلوچوں کو نئی امیدوں کی یقین دہانی دے کر انتظار کروا کر انکے جذبات کے ساتھ کھیلا گیا ہے۔بالآخر یہ تو سیاست ہے اور خصوصاً بلوچوں کے جذبات کے ساتھ کھیلنا ان سیاسی جماعتوں کا پرانا وطیرہ ہے ۔بلوچستان میں چاغی واقعے کے بعد لوگ شدید غم زدہ ہیں اور چوراہوں پر نکل کر اس واقعے کی مذمت کر رہے ہیں جو واحد عمل ہے جو یہ پرامن شہری کر سکتے ہیں لیکن یاد رہے کہ سکیورٹی فورسز نے پرامن مظاہرین پر فائرنگ کی تھی۔
واضح بات یہ ہے کہ عام شہری ضلعی انتظامیہ کے خلاف احتجاج کر ر ہے ہیں جو اسی نظام کا حصہ ہیں اور ان کے پاس غالباً کوئی اختیار بھی نہیں ہے۔آسان لفظوں میں ہم جس نظام کے خلاف احتجاج کر رہے ہیں اور اسی نظام سے انصاف بھی مانگ رہے ہیں۔چلو اسی نظام سے تعلق رکھنے والے ایک سیاسی جماعت نے وفاقی کابینہ میں شامل ہونے سے انکار کر دیا اور یہ بھی مطالبہ کر دیا کہ ایک کمیٹی بنائی جائے جس سے چاغی واقعہ میں ملوث مرکزی ملزمان کو سزا دی جائے۔میرے نزدیک اس ردعمل کا نتیجہ صرف جذباتوں کے ساتھ کھیلنے والی بات ہے۔
بلوچستان میں ایسی مذاکراتی اور تحقیقاتی کمیٹیوں کا نتیجہ اور ان کی تاریخ ہم سب کو خوب معلوم ہے۔ایسی کمیٹیوں نے مرکزی ملزمان کو کبھی بھی پکڑنے کی کوشش نہیں کی بلکہ ساتھ ہی ساتھ مرکزی ملزمان کو بچانے کے لئے بھرپور کوشش کرتے رہے ہیں۔اور ساتھ ہی ساتھ اسی نظام نے بلوچ طالب علموں کو تنگ کرنے کی قسم کھائی ہے۔تربت سے لے کر کوئٹہ تک تعلیمی ادارے صرف احتجاجی کیمپ بنے ہوئے ہیں۔میرے نزدیک ایسی نظام کے خلاف احتجاج کرنا آئین کی پاسداری ہوگی۔