|

وقتِ اشاعت :   April 23 – 2022

بلوچستان کے قبائلی روایات اور رسم و رواج کی وجہ سے آج بھی خواتین مشکلات اور پسماندگی کا شکار ہیں ۔قبائلی نظام اور سخت معاشرتی و قبائلی قوائد کی وجہ سے خواتین کی تعلیمی شرح نہ ہونے کے برابر ہے۔ 2017 کے ایک سروے کے مطابق بلوچستان میں گرلز ایجوکیشن 23فیصد ہے جبکہ کوئٹہ کے علاوہ یہ شرح مزید کم ہے بلوچستان میں قبائلی جھگڑے بھی خواتین کو مشکلات سے دوچار کرتے آ رہے ہیں جبکہ نصیرآباد ڈویژن جو کہ سندھ سے ملحقہ علاقہ ہے جہاں سیاہ کاری یعنی غیرت کے نام پر قتل کے فرسودہ واقعات زیادہ تعداد میں ہوتے ہیں ان واقعات میں اکثر خواتین ہی لقمہ اجل بنتی ہیں اور موت کے منہ میں چلی جاتی ہیں

یا پھر وہ جان بچانے کیلئے بھاگ کر تھانہ یا دارالامان پہنچ جاتی ہیں۔ میری معلومات کے مطابق پورے بلوچستان میں صرف ایک ہی دارالامان ہے جوکہ صرف کوئٹہ میں واقع ہے۔ سوا کروڑ کی آبادی رکھنے والے صوبے کیلئے صرف ایک دارالامان کا ہونا انتہائی قابل افسوس ہے۔ کوئٹہ کے بعد گنجان آبادی کا حامل علاقہ نصیرآباد ڈویژن ہے جوکہ بلوچستان کا گنجان اور زرعی بیلٹ کہلانے والا علاقہ ہے اور یہ سب دو نہروں پٹ فیڈر کینال اور کھیرتھر کینال کی بدولت ہے۔ سرسبز و زرعی خوشحالی و شادابی کی وجہ سے نصیرآباد ڈویژن میں لڑائی جھگڑے قتل و غارت روز کا معمول بن چکا ہے۔ جس میں سب سے زیادہ متاثر خواتین طبقہ ہی ہو رہا ہے اور ہمارے معاشرتی اقدار اور قبائلی رسم و رواج، شوہر کے ظلم وستم،باپ کی ملکیت میں اس کا جائز حصہ نہ دینا، قرضہ اور زمین کے عیوض خواتین کی قتل و غارت، کم عمری اور بے جوڑ شادیوں کے باعث بھی اکثر خواتین گھروں سے بھاگ کر پناہ لینے کیلئے عدالتوں میں پہنچ جاتی ہیں جنہیں کوئٹہ دارالامان بھیج دیا جاتا ہے۔

یا پھر کسی سرکاری جیل یا کسی قبائلی سردار،وڈیرہ، میر، پیر و رئیس کے گھر میں پناہ دی جاتی ہے۔ اور جب تک اس کا قبائلی فیصلہ نہ ہو وہ اس گھر میںبطور نوکرانی زندگی گزارنے پر مجبور ہوتی ہے اور اکثر اس طرح کی مجبور و لاچار خواتین کو رقم کے عیوض بیچ دیا جاتا ہے جو زندگی بھر مشقت اور مشکلات سے دوچار ہونے کے ساتھ ساتھ اپنے والدین اور خاندان سے مکمل طور پر لا تعلق یا یوں کہیں ان سے ہمیشہ کیلئے رابطہ ختم ہو جاتا ہے۔


اس سلسلے میں خواتین کو ان کے حقوق کے بارے میں شعور و آگہی دینا انتہائی اہمیت کی حامل ہے سرکاری اور غیر سرکاری سطح پر اس طرح کے ظلم وستم یا جبری تشدد کے واقعات کے خاتمے کیلئے ریاست کو اپنے قوانین پر عمل درآمد کرانا ہوگا۔ گھریلو تشدد صرف کسی قانون سے ختم نہیں ہو سکتا اس کے لیے ہمیں اپنے معاشرے کے اندر ایک مہم چلانے کی ضرورت ہے جس میں آگاہی دی جائے۔ ہماری بیٹیوں، بہنوں اور مائوں کو بتایا جائے کہ آپ کے کیا حقوق ہیں؟ آپ اگر کسی جگہ شادی کرکے جا رہی ہیں تو آپ نے کن چیزوں کو مدّنظر رکھ کے اْس نکاح کے پیپر پر دستخط کرنے ہیں۔ اگر ہم ان چیزوں کے اْوپر عملدرآمد کریں گے تو ہم اس گھریلو تشدد جیسے عفریت پر قابو پا سکیں گے۔ ورنہ یہ چیزیں ہمیشہ بلوچستان کے ساتھ رہیں گی اور اگر صوبے کو آگے لے کر چلنا ہے تو ہمیں ابھی سے ان چیزوں کے اوپر قابو پانا ہوگا۔ بلوچستان میں خواتین پر مظالم اور ناروا سلوک کے خاتمے کیلئے ریاستی ایکٹ کے تحت وائلنس اگینسٹ ویمن سنٹرز کا قیام صوبہ بھر میں انتہائی ناگزیر ہے۔ یہ وہ مراکز ہیں جن کے ذریعہ اس ایکٹ کو قابل عمل بنایا جا سکتا ہے۔

تاکہ کل کو کبھی بھی کسی پہ تشدد ہو تو وہ ایک ہی جگہ پر آ کر ان تمام سہولیات سے استفادہ کر سکے اور اس وائلنس کے بارے میں رپورٹ کیا جا سکے۔ اْس کے علاوہ ہمارے معاشرے کو بھی اس چیز کی ضرورت ہے کہ ہم جس عورت پہ جو اس بہیمانہ تشدد کے خلاف رپورٹ کر رہی ہے اْس سے یہ سوالات نہ پوچھیں کہ آپ نے یہ چیز پہلے کیوں نہیں کی؟ ہم نے وہ ماحول ہی آج تک مہیا نہیں کیا کہ وہ اپنے گھر کے اندر ہی اس چیز پہ آواز بلند کر سکے اور اْس کو کسی قسم کی مخالفت کا سامنا نہ کرنا پڑے۔اس طرح ہم معاشرے میں یا متاثرین پر وائلنس اگینسٹ وومن سنٹر کے اوپر عورتوں کے اعتماد کی نشاندہی پر پورا اتر سکتے ہیں۔

صوبائی حکومت کا فرض ہے کہ وہ دارالامان میں مقیم خواتین اور بچوں کے حقوق کا مکمل خیال رکھے اور کسی بھی معاونت کے لئے انہیں فوری آگاہ کیا جائے تاکہ ان کے مسائل کا فوری حل تلاش کیا جا سکے اور انہیں جلد سے پیشتر اپنے گھروں میں بھیجا جا سکے۔اور ساتھ ہی وہاں مقیم خواتین کو حکومتی ہدایات کے مطابق تمام بنیادی سہولیات فراہم کی جائیں یعنی انہیں بہترین ماحول کی فراہمی کے ساتھ ساتھ خواتین اور بچوں کی تعلیم و تربیت کا بھی خاص بندوبست کیا جانا چاہئے نہ فقط یہ بلکہ ان کیلئے ماہر خواتین اساتذہ کا انتظام کیا جائے۔ انہیں مختلف ہنر سکھائے جائیں مثلا کشیدہ کاری، سلائی کڑھائی ، صابن بنانا ،کیچپ بنانا سمیت دیگر ہنر سکھا کر انہیں معاشرے میں بہتر طورپر زندگی گزارنے کے قابل بنایا جائے اور ساتھ ہی ان کے زیر التواء کیسز کو صوبائی حکومت خود دیکھا کرے۔

ضرورت پڑنے پر انہیں مفت قانونی معاونت کی فراہمی کیلئے وکلاء کی خدمات کو یقینی بنایا جائے تاکہ ان کے زیر التوا کیسز جلد نمٹائے جا سکیں۔ بلوچستان میں مختلف جیلوں میں بہت سی خواتین جرمانے کی رقم نہ ہونے کے باعث عرصہ دراز تک قید و بند کی صعوبتیں برداشت کرتی رہتی ہیں۔ صوبائی حکومت ان خواتین کے جرمانے ادا کرکے انہیں جلد ریلیف فراہم کرے اور اگر ان مجبور و لاچار خواتین کو ملازمت یا قرضہ دیکر انہیں بہتر انداز میں اپنی زندگی گزارنے اور اپنے گھر کو چلانے کیلئے انتظامات کرے تو یہی خواتین معاشرے کیلئے ایک مثال بن سکتی ہیں۔

تاہم اس کی سب سے زیادہ ذمہ داری صوبائی پارلیمنٹرینز بلخصوص خواتین اراکین اسمبلی کی ہی بنتی ہے کہ وہ کس طرح ان محکوم و لاچار اور بے بس خواتین کو بااختیار اور خودمختیار بنانے کیلئے اور انہیں جائز قانونی حق دلانے میں اپنا کردار ادا کر سکتے ہیں۔ آج کے جدید اور ترقی یافتہ دور میں اب وقت آگیا ہے کہ ہم اس چیز کو لے کر آگے چلیں اور اب ہم اس فرسودہ اور دقیانوسی سوچ اور بحث کو ختم کر دیں کہ اگر ایک عورت اپنے حق کے لیے آواز بلند کرتی ہے تو ہم نے اْس کو کس طرح سے دبانا ہے۔ یہ وقت ہے اس کو سپورٹ کرنے اور اسے آگے لے کر چلنے کا تاکہ بلوچستان صحیح معنوں میں ترقی کی منازل طے کرے اور ایک فلاحی صوبہ بن سکے۔