موت زندگی کے اختتام کا نہیں بلکہ لامحدود زندگی کے آغاز کا نام ہے، لیکن کچھ لوگ ایسے ہیں جن کے نام صرف تاریخ کے صفحات پر ہیں چوبیس سالہ شہید صحافی عبدالواحد رئیسانی بھی ان میں سے ایک ہیں ، نوجوان صحافی شہید عبدالواحد رئیسانی نے6 دسمبر 1997ء کو ڈاکٹر عبدالغفار رئیسانی کے یہاں آنکھ کھولی۔
متوسط گھرانے سے تعلق ہونے کی وجہ سے بچپن سے ہی محنت ،مشقت اس کے حصہ میں آئی وہ بچپن سے ہی شرمیلے اور خاموش طبع تھے اس لیے اپنی خواہش کا اظہار بھی بہت کم کرتے، ان کے اندر پلنے والی خواہش کا گھر میں کسی کو بھی پتہ نہ چلا،ان کی سب سے زیادہ دوستی اپنی والدہ سے تھی اس لیے وہ ماں سے لاڈ پیار میں سب سے آگے تھااور اپنی محنت ،لیاقت کی بناء پر ماں باپ اور بھائیوں کی امیدوں اور آرزئوں کا مرکز بنا۔
شہیدواحد رئیسانی نے آٹھویں جماعت تک تعلیم گھر کے قریب واقع سرکاری اسکول کلی احمد خانزئی سے حاصل کی بعدازاں اپنے آبائی اسکول سینٹرل ہائی اسکول میں داخلہ لیا جہاں سے اس نے میٹرک کے امتحان میں نمایاں نمبر حاصل کئے اور مزید تعلیم جاری رکھنے کیلئے گورنمنٹ ڈگری کالج کا رخ کیا۔ میڈیکل کا شعبہ اختیار کرنے کو ترجیح دیتے ہوئے واحد رئیسانی نے میڈیکل کی نشست حاصل کرنے کیلئے دن رات محنت کی تاہم چند ہی نمبرز سے وہ اپنے ضلع سے میڈیکل کی نشست حاصل کرنے میں ناکام رہا۔ بعدازاں بھائیوں کی مشاورت سے اس نے بلوچستان یونیورسٹی کے شعبہ ہوم اکنامکس میں داخلہ لیا اور وہاں سے بی کام کا امتحان امتیازی نمبر زسے پاس کیا اس دوران وہ صحافت کے میدان میں بھی قدم رکھ چکے تھے، صحافتی کیریئر کی ابتداء میں واحد رئیسانی بلوچستان کے مقامی روزنامہ آزادی میں بحیثیت کمپیوٹر آرپٹر اپنی خدمات سرانجام دینے لگا اور انتہائی کم عرصہ میں اس نے کم عمر نیوز ایڈیٹر بننے کا اعزاز حاصل کیا اس نے اپنے ادارے میں روایتی سب ایڈیٹنگ کو عصر حاصر کی ڈیجیٹل سب ایڈیٹنگ میں تبدیل کرکے روزنامہ آزادی کے ویب پیج کا آغاز کیا جوانتہائی کم عرصہ میں مقبولیت عروج کو پہنچی واحد رئیسانی کو یہ مہارت حاصل تھی کہ وہ خبر کے اندر سے خبر نکال کر ایسی شہ سرخیاں نکالتے کہ ہر خبر سوشل میڈیا کے قارئین کی توجہ کا مرکز بن جاتی۔
واحد رئیسانی کمپیوٹر آپریٹر سے سب ایڈیٹنگ اور سب ایڈیٹنگ سے رپورٹنگ کی طرف مائل ہوئے اور آزادی ڈیجیل ٹی وی کیلئے بطور رپورٹر خدمات سرانجام دینا شروع کیںوہ کوئٹہ شہر کے اکثر عوامی نوعیت کے مسائل کی نشاندہی بھی کرتے واحد رئیسانی نے جہاں صحافت کے کئی اعزاز اپنے نام کئے وہیںپر کھیل کے میدان میں بھی اس کا کوئی ثانی نہیں تھا وہ اپنی ٹیم کے کپتان بھی تھے اسے ایک اچھے مقرر ہونے کا بھی اعزاز حاصل تھا اس لیے اسکول ، کالج اور یونیورسٹی میں ہونے والے پروگرامز کے اسٹیج سیکرٹری کے فرائض بھی اس کے حصہ میں آتے وہ سمجھتے تھے کہ متوسط طبقہ سے تعلق رکھنے والے افراد کو معاشرے میں کم اہمیت دی جاتی ہے اس لیے اس کی کوشش ہے کہ وہ زندگی میں اپنی منفرد پہنچان اور مقام بنائے جس میں وہ نہ صرف اپنی زندگی بلکہ بعداز مرگ بھی کامیاب ہو ااس کو نہ لوگ بھولے نہ تاریخ کبھی فراموش کریگی واحد رئیسانی کو گزشتہ برس آج ہی کے دن یعنی 24 اپریل 2021ء کو گیارویں رمضان کی شب افطاری کے بعد گھر سے دفتر کیلئے جاتے ہوئے قمبرانی روڈ پرٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بناکر شہید کیا گیا یوں واحد رئیسانی کا نام بھی بلوچستان میں اب تک پرتشدد واقعات ، ٹارگٹ کلنگ اور بم دھماکوں میں شہید ہو نے والے صحافیوںکی فہرست میں شامل ہوا اس فہرست میں اور بھی بہت بڑے بڑے نام ہیں جو اپنے قارئین او رناظرین کیلئے خود ’’ خبر ‘‘ بن گئے۔
واحد رئیسانی کی شہادت کی خبر سن کر سیاسی جماعتوں کے قائدین ، وکلاء، سول سوسائٹی، صحافتی تنظیموںنے واقعہ کی بھر پور مذمت کی کوئٹہ کے شہری اور صحافیوں کی بڑی تعداد ہسپتال پہنچ گئی۔ شہید عبدالواحد رئیسانی کو 25 اپریل کی صبح ریلوے ہا?سنگ سوسائٹی جوائنٹ روڈ پر واقع ان کے آبائی قبرستان میں آسودہ خاک کیا گیا واحد رئیسانی کی صحافتی پیشہ وارانہ خدمات کو ملکی میڈیا،اخبارات ، سوشل میڈیا پر نمایاں کوریج ملی تاہم ایک سال کے دوران واحد رئیسانی کے اہلخانہ نے بہت سی اذیتوں اور کرب کاسامنا کیا ہے مگر کسی پولیس افیسر کواس دوران یہ خیال نہیں آیا کہ اس کے قتل کیس کی فائل پر پڑی دھول کوجھاڑ کر تحقیقات میں مزید پیشرفت سے آگاہی حاصل کی جائے
کیوں کہ بلوچستان میں ہر روز ایک سانحہ سے بڑھ کر دوسرا سانحہ پیش آتا ہے اور بدقسمتی سے ہر واقعہ کے بعد پہلے واقعہ کے متاثرین پوری زندگی انصاف کی راہ تکتے ہی رہ جاتے ہیں۔ واحد رئیسانی کے قتل میںپولیس کی جانب سے نامزد کئے گئے تین ملزمان میںسے ایک فرار ہوکر نظام انصاف کا منہ چڑا رہا ہے،دیگر گرفتار ملزمان میں سے بھی ایک نے بلوچستان ہائیکورٹ سے بعداز گرفتاری ضمانت حاصل کرلی ہے جبکہ دوسرے نے ضمانت کے حصول کیلئے عدالت میں درخواست دائر کررکھی ہے۔ 2008 سے لے کر اب تک بلوچستان میں صحافتی تنظیموں کی رپورٹس کے مطابق 40 سے زائد صحافی متعدد بم دھماکوں، حملوں و فائرنگ کے واقعات میں شہید اور زخمی ہوئے ہیںتاہم آج تک کسی صحافی کے قاتلوں کو گرفتار نہیں کیا جاسکا ہے تاہم صحافت کا سفر جاری ہے اور جاری رئیگا۔