محبوب خدا احمد مجتبیٰ کی بعثت سے قبل دنیا میں انسانی حقوق کی صورتحال انتہائی گھمبیر تھی۔ریاستوں میں بادشاہوں کے لا محدود اختیارات تھے جب کہ رعایا کی حیثیت غلاموں سے زیادہ نہ تھی۔ حقوق و فرائض کی کوئی تقسیم نہ تھی بلکہ عرب کی حالت حقوق انسانی کے معاملے میں باقی دنیا کی نسبت زیادہ بھیانک تھی جہاں غلاموں کے حقوق نہ تھے، عورتوں کی تذلیل کی جاتی تھی،بچیوں کو پیدا ہوتے ہی زندہ درگور کر دیا جاتا تھا۔ ایسے وقت میں نبی اکرمؐ نے انسانیت کو ظلم و زیادتی کی دلدل سے نکال کر رشد و ہدایت کے راستے پر ڈالا، جہاں انسانی حقوق کا احترام نظر آتا ہے۔ انسانیت کی اہمیت کا درس دیتے ہوئے عرب معاشرے کو ایسے مقام پر لا کھڑا کیا جہاں باقی دنیا آپ کے تیار کردہ افراد کی تربیت کو داد دیئے بغیر نہ رہ سکی بلکہ آپ نے ایک قدم آگے بڑھاتے ہوئے انسانی حقوق کی ادائیگی کی اعلیٰ مثالیں قائم کیں۔ ایک غلام کو اپنا بیٹا بنا لیا،ایک حبشی غلام کو کعبہ کی چھت پر کھڑا کرکے اذان دلوائی جس کو مکہ کے لوگ اپنے پاس بیٹھانے تک پسند نہیں کرتے تھے اور ایسا مقام عطا کیا کہ سب ان کو سیدنا بلال کہہ کر پکارنے لگے۔وہی عورتیں جن کی معاشرے میں کوئی عزت نہ تھی ان کے مقام کا عالم یہ ہو گیا کہ لوگ ماں کی خدمت کو حج اور جہاد پر ترجیح دینے لگے۔انہی انسانی حقوق کا پرچار نبی اکرماپنی زندگی میں مختلف مقامات اور اوقات میں قولی اور عملی شکل میں بیان کرتے رہتے۔ انہی میں سے کچھ کا تعلق بچوں کے ساتھ بھی ہے۔وقت کے ساتھ ساتھ بچوں کے متعلق کچھ ایسے مسائل پیدا ہو رہے ہیں جو نہ صرف خاندانوں کیلئے نقصان دہ ہیں بلکہ معاشرتی خرابیوں کا ایک اہم سبب ہیں جن میں بنیادی طور پر (our Lab Child)چائلڈ لیبر ہے ایسے بچے جن کا کوئی پرسان حال نہ ہو اور ( child of Education)بچوں کی تعلیم کے بنیادی مسائل ہیں۔چائلڈ لیبر سے مراد دراصل بچوں کا چھوٹی عمر میں کام پر لگ جانا ہے جب کہ یہی عمر ان نو نہالوں کی تعلیم اور سیر و تفریح کی ہوتی ہے۔پاکستان میں چائلڈ لیبر کی شرح میں روز بروز اضافہ ہوتا جا رہا ہے اور یہ بچوں کے مسائل میں ایک بہت بڑا مسئلہ ہے اور اعلیٰ سطح پراس کے اعداد و شمار کافی تشویشناک ہیں۔انٹرنیشنل لیبر آرگنائزیشن (ILO) اس بارے میں کچھ یوں رپورٹ کرتی ہے:
ایک اندازے کے مطابق چوبیس کروڑ ساٹھ لاکھ بچے چائلڈ لیبر کا شکار ہیں ان بچوں میں سے تقریباً تین چوتھائی (سترہ کروڑدس لاکھ) سخت مشقت والے کام کرتے ہیں جیسے کہ کانوں میں کام کرنا، کیمیکلز کے ساتھ کام کرنا، کھیتی باڑی اور خطرناک قسم کی مشینری کے ساتھ کام کرنا۔ایسے بچے ہر جگہ پر ہیں لیکن ان کی مشقت گھریلو ملازم کی طرح نظر آتی ہے،ورکشاپس کی دیواروں کے پیچھے کام کرتے نظر آتے ہیں،آنکھ سے چھپے ہوئے کھیتوں میں کام کرتے نظر آتے ہیں۔لاکھوں بچیاں گھریلو ملازم کے طور پر کام کرتی ہیں جن کو کوئی معقول معاوضہ بھی نہیں دیا جاتا اور خاص طور پر یہ آسانی سے جنسی زیادتی کا نشانہ بھی بن جاتی ہیں۔اسی طرح کئی لاکھ بچیاں خوف کی حالت میں کام کرتی ہیں ان میں سے لاکھوں کو زبردستی مختلف مقامات پر سمگل کر دیا جاتا ہے، جہاں ان سے زبردستی کام لیا جاتا ہے یا پھر غلامی کی دوسری صورت اختیار کی جاتی ہے اور ہزاروں بچوں کو پیشہ ور بدکاری اور فحش فلمیں بنانے کے لیے مجبور کیا جاتا ہے یا پھر دوسری ممنوعہ سرگرمیوں میں شامل کیا جاتا ہے۔ بچّے جو کسی ملک کا مستقبل سرمایہ اور اثاثہ ہوتے ہیں،جب حالات سے مجبور ہو کر ہنسنے اور کھیلنے کے دنوں میں کام کرنے نکل پڑتے ہیں، تو یقیناًاس معاشرے کے لیے ایک المیہ وجود پا رہا ہوتا ہے۔ بلوچستان میں یہ المیہ ہر گزرتے دن کے ساتھ زخم کی صورت اختیار کر رہا ہے، جو اب ناسور بن کر سماج کا چہرہ داغدار اور بد صورت کر رہا ہے۔ بچّے خدا کی سب سے خوب صورت اور معصوم ترین مخلوق ہیں اور یہ حقیقت ہے کہ اس دنیا میں جو خوب صورتی ہے وہ ان بچّوں کی وجہ سے ہے، مگر افسوس کہ آج ان خوب صورت اور معصوم بچّوں کی زندگیاں اندھیروں کی طرف دھکیلی جارہی ہیں۔ کیا کوئی ایسا قانون ہے جو بلوچستان کے بچوں کو اندھیروں کی دنیا سے نکال کر روشنی کی دنیا میں لائے؟ معاشی بدحالی، سہولیات سے محرومی،معاشی استحصال، بے روزگاری، غربت اور وسائل کی غیر منصفانہ تقسیم نے بلوچستان میں جگہ جگہ اس المیہ کو جنم دے رکھا ہے۔ بلوچستان میں ہزاروں بچّے مزدوری کرنے پر مجبور ہیں۔ یہ بچّے مختلف جگہوں جیسے ہوٹلوں، دکانوں، بس اڈوں، ورک شاپوں اور دیگر متعدد جگہوں پر ملازمت کرنے کے علاوہ مزدوری کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ بہت سارے بچّے کوڑا اْٹھانے کا کام بھی کرتے ہیں۔ (جس میں وہ ہسپتالوں کا کوڑا بھی اٹھاتے ہیں، جو خطرناک بیماریوں میں استعمال ہونے والے پٹیاں وغیرہ ہوتے ہیں)۔ اس طرح ان بچّوں کی زندگیوں کو خطرہ لاحق ہوتا ہے۔ ان بچّوں میں آٹھ سال سے لے کر چودہ سال کے بچّے شامل ہیں۔ اس وقت کوئٹہ میں ہزاروں بچّے مزدوری کر رہے ہیں۔ کوئٹہ کی طرح بلوچستان کے باقی اضلاع جیسے نصیرآباد، لسبیلہ، جعفرآباد،قلات، مستونگ،چمن لورالائی، پنجگور، تربت، گوادر، خضدار، ژوب، حب و دیگر شہروں میں بچوں کی کثیر تعداد میں مزدوری کرتے ملیں گے۔ ان بچوں کے تعلیم حاصل کرنے کے بہترین سال ضائع ہو رہے ہیں اور بلوچستان میں ایسے لاکھوں بچّے ہیں جو نا تو کبھی اسکول گئے ہیں اور نہ ہی ان کو یہ پتہ ہے کہ اسکول ہوتا کیا ہے؟ قوم کے مستقبل کا ایک بڑا حصّہ اپنے بچپن سے محروم ہورہا ہے۔ غربت کی وجہ سے اب لوگوں کو اس کے سوا کوئی راستہ نظر نہیں آتا، اسی لیے وہ اپنے بچوں کو ابتداء سے کام پر لگا دیتے ہیں۔ جن سے ان کا چولہا جلتا رہے اور گھر کا خرچہ چلتا رہے۔بقیہ ضروریاتِ زندگی پوری ہوتی رہیں۔ پاکستان میں بچوں کی مزدوری کا قانون بنے چودہ سال ہوگئے ہیں لیکن اس پر عمل در آمد نہیں ہو سکا۔ اس قانون میں بھی نئے عالمی چارٹر کے مطابق بہتری لانے کی ضرورت ہے۔ مزدوربچوں پر آخری سروے 1996 میں ہوا تھا۔ جس میں بتایا گیا تھا کہ ملک میں تیس لاکھ مزدور بچے ہیں۔ جبکہ یہ صرف باقاعدہ کام کاج کی جگہوں پر کام کرنے والے بچّے ہیں۔ہمارے ملک میں مستقبل کے ان معماروں میں سے اکثر و بیشتر کو بچپن ہی میں محنت مزدوری پر لگا کر قوم کا مستقبل تاریک بنانے کی داغ بیل رکھ دی جاتی ہے۔ بلوچستان میں اسکول جانے کی عمر کے ستائیس لاکھ بچّے تعلیمی اداروں سے باہر ہیں۔ چائلڈ لیبر ایک بہت ہی بڑا مسئلہ ہے، ملک کے لیے اور آنے والی نسلوں کے لیے۔ غربت کے مارے بچّے جب باقی بچوں کو اسکول جاتے دیکھتے ہیں تو نہ جانے کتنی حسرتیں اور کتنے شکوے زبان پر دم توڑ دیتے ہیں۔ پیٹ کی بھوک ہر چیز پر حاوی ہوجاتی ہے، لیکن معصوم بچّوں کے ذہن پر بھوک اور بدحالی کا جو خوف سوار ہے، اْسے کم کون کرے گا،؟ ویسے مملکت خداداد نے آئین کے آرٹیکل 25 میں تو یہ لکھ دیا ہے کہ تعلیم سب کے لیے ہے اور مفت کتابیں دے کر یہ بھی ثابت کر دیا کہ حکومت ان لوگوں کے لیے سوچ رہی ہے۔ تو کیا واقعی حکومت ان بچوں کے لیے سوچ رہی ہے؟ شاید نہیں۔ اگر سوچا ہوتا تو چائلڈ لیبر میں دن بہ دن اضافہ نہ ہوتا۔ان بچوں میں احساسِ محرومی بڑھتا جا رہا ہے جس کی وجہ سے یہ بچّے جرائم کی طرف جارہے ہیں۔ آج بڑھتی ہوئی مہنگائی نے ان معصوموں کے کندھوں پر گھر کا بوجھ ڈال رکھا ہے۔ جہاں ان بچوں کو تتلیوں کے پیچھے بھاگنا چاہیے تھا، آج یہ بچّے دو وقت کی روٹی کی خاطر مزدوری کرنے کے پیچھے بھاگ رہے ہیں۔ چائلڈ لیبر کو ختم کرنے کیلئے کچھ اقدام کرنے ہونگے جوکہ درج ذیل ہیں اور حکومت ان پر ترجیحی طور پر کام کرے تاکہ یہ اہم ایشو حل ہو سکے۔
بچوں کی تعلیم سے دوری کا سب سے بڑا سبب انکے والدین کی ابترمعاشی صورتحال اور غربت ہے کیونکہ وفاق اور صوبائی حکومتیں اس اہم مسئلہ کی طرف توجہ نہیں دیتیں جس کی بدولت امراء طبقہ پیسے کی بناء پر اپنے بچوں کو اعلیٰ سکولوں اور کالجوں میں تعلیم دلواتے ہیں جب کہ غریب اور متوسط طبقہ کے حامل خاندان اس کی طاقت نہ رکھتے ہوئے بچوں کو اپنے ساتھ مزدوری کے کام میں شامل کر لیتے ہیں۔ آئین پاکستان اور اقوام متحدہ چارٹرڈ اور کنونشن میں جو حقوق بیان کیے گئے ہیں ان تمام قوانین کو فی الفور ملکی قوانین کا حصہ بنایا جائے۔ان پر سختی سے عمل کروایا جائے اور عمل نہ کرنے والوں کے خلاف سخت سے سخت ایکشن لیا جائے۔بچوں کی جان کو لاحق خطرات بالخصوص بچوں کے اغواء اور انہیں جنگ و خودکش حملوں میں استعمال کرکے مخالف فریق کی طرف سے ان کا بے دریغ قتل، بچوں پر جنسی اور جسمانی تشدد کے مرتکب افراد بچوں کی سمگلنگ اور ٹریفکنگ جیسے واقعات میں ملوث گروہ، مافیاز کو سخت سزائیں دی جائیں تاکہ بچے محفوظ رہ سکیں۔ حکومت پاکستان تمام صوبوں کی درجہ بندی کرے اور غربت کے زیادہ شکار صوبوں کو اولیت دے تاکہ ان غریب صوبوں کے محنت کش مزدور اور غریب بچوں کو ملک کے دیگر ترقی یافتہ صوبوں کے بچوں کے برابر سہولیات فراہم کرنے کے لیے اقدامات کرکے ان بنیادی ایشوز کو اولیت دیکر بچوں اور ان کے خاندان کی کفالت کیلئے کردار ادا کرنا ہوگا۔ بچوں کی تعلیم و تربیت اور صحت کے لیے ریاست اور دیگر سماجی اداروں کو بچوں کی مشقت لیبرنگ اور ایسے بچوں پر سیکسؤل ہراسمنٹ سمیت دیگر واقعات پر ایسے بحالی سینٹرز بنانے ہونگے جہاں انہیں باعزت روزگارتک ان کیلئے وظائف مقرر کرنا ہوگا جس سے ان کے گھروں میں فاقے نہ ہوں اور ساتھ ہی انہیں معیاری تعلیم کی فراہمی کے ساتھ ساتھ انہیں جدید ٹیکنیکل اسکلز اور ہنر دیا جائے تاکہ تعلیم مکمل کرنے کے بعد انہیں باعزت روزگار فراہم کرنے کے مواقع فراہم ہوں۔ اور ساتھ ہی حکومت اس طرح کی قانون سازی کرکے انہیں سمال انڈسٹریز اور کاروبار کیلئے وسیع پیمانے پر قرضہ جات فراہم کرکے انہیں ملک کے کامیاب بزنس مین بنایا جا سکتا ہے۔آپ سب کے علم میں ہے کہ پاکستان سمیت دنیا کے تمام ممالک نے اقوام متحدہ کے چارٹر پر دستخط کیے ہیں۔اس لیے عمل درآمد کے لیے تمام ممالک میں مختلف کمیٹیاں تشکیل دیکر ان ممالک میں چائلڈ لیبر قوانین کے خلاف ورزی کرنے والوں کے خلاف ایکشن لیا جائے تاکہ آئندہ کوئی بھی ملک ان قوانین کی خلاف ورزی کا مرتکب نہ ہو سکے۔ہمارے صوبے بلوچستان میں اس وقت بچوں کو جو سب سے بڑا مسئلہ درپیش ہے وہ ہے ناخواندگی کا۔صوبے کے بہت سے بچے ناخواندگی کا شکار ہیں۔خاص طور پر خط غریب کے شکار افراد۔ خانہ بدوش مزدور پیشہ اور متوسط طبقہ کے افراد میں اس کا تناسب بہت زیادہ ہے، بلوچستان میں ملک کے دیگر صوبوں کی نسبت خط غربت زیادہ ہے جہاں روزگار کے موقع انتہائی محدود ہیں ایسے بچوں اور طبقات پر حکومت کو نہ صرف خصوصی توجہ دینا ہو گی بلکہ اس کے لیے جلد اور ٹھوس بنیادوں پر اقدامات کرنے ہوں گے۔بلوچستان جیسے پسماندہ معاشرے یا اسلام میں بھی مزدوری کرنے کی کوئی پابندی نہیں ہے۔لیکن اگر بچوں کے بنیادی حقوق سے رو گردانی کی جاتی ہے تو یہ عمل کسی بھی طرح جائز نہیں ہے۔ اسلام بچوں کے مختلف ہنر سیکھنے کے عمل کو چائلڈ لیبر میں شمار نہیں کرتا۔ اس لیے حکومت وقت کو چاہیے کہ تعلیم کے ساتھ ساتھ بچوں کو ٹیکنیکل ایجوکیشن کے لئے اقدامات کیے جائیں جہاں بچے تعلیم کے ساتھ ساتھ بہتر ہنر بھی سیکھ کر اپنے خاندان کے حقیقی معنوں میں کفیل بن سکیں اور باعزت روزگار کر سکیں اور ساتھ حکومت ان بچوں کیلئے ایک خاص مقدار میں وظیفہ بھی مقرر کرے۔اور
جہاں تک ممکن ہو بچوں کو ایدھی ہوم سویٹ ہوم یا یتیم خانوں میں بھیجنے کی بجائے صاحب ثروت افراد کو ان کی تربیت کیلئے اپنا فعال کردار ادا کرنا ہوگا تاکہ اس طرح کے بچوں میں کسی قسم کی احساس کمتری پیدا نہ ہو سکے۔
ان مذکورہ بالا تجاویز کو ملکی اور صوبائی سطح پر اپنا کربچوں کو ان کے جائز اور حقیقی حقوق سے روشناس کیا جا سکتا ہے۔بچے بہتر تعلیم و تربیت حاصل کر کے ہی ملک اور صوبے کی بہتر انداز میں خدمت اور قیادت کر سکتے ہیں اور معاشرے میں اپنا فعال اور موثر کردار ادا کر سکتے ہیں۔
چائلڈ لیبر کو روکنے کے لیے حکومت کو کوئی مستقل حل ڈھونڈنا چاہیے، تاکہ ہمارا مستقبل محفوظ ہو سکے۔ نیز کروڑوں کے فنڈز خرچ کرنے والے غیر سرکاری اداروں المعروف این جی اوزکو بھی چائلڈ لیبرز اور اس کے اسباب کے خاتمے کے لیے ٹھوس بنیادوں پر اقدامات کرنے چاہئیں۔
چائلڈ لیبر کی بڑھتی ہوئے خوفناک شرح
وقتِ اشاعت : April 28 – 2022