|

وقتِ اشاعت :   May 1 – 2022

شاری بلوچ اور بچوں کی دو انگلیوں سے وکٹری یعنی فتح کا نشان دکھاتی اسکرینوں پر دمکتے ہوئے چہرے بے چین کیے ہوئے ہیں۔ مزید افسردگی بلکہ غصّہ اس پر ہے کہ صوبائی و وفاقی حکومت کے ادارے، ایجنسیاں، مشیر اور وزیر روایتی انداز میں وہی راگ الاپ رہے ہیں جس نے بلوچستان کی مزاحمتی تحریک کو آج اس نہج پر پہنچایا۔پھر بلوچستان کی سیاست کے بڑے کردار یعنی سردار اختر مینگل، محمود خان اچکزئی، ڈاکٹر مالک بلوچ، سردار ثنااللہ زہری، نواب اسلم رئیسانی 72 گھنٹے کے بعد بھی اس واقعے یا سانحہ پر مہر بہ لب ہیں۔
بلوچستان کے اس وقت سیاسی باپوں کا ذکر اس لیے نہیں کروں گا کہ یہ تو اپنے گھروں سے دفتر اور اپنے آبائی شہر بھی سیکیورٹی حصار میں آتے جاتے ہیں۔ جس دن یہ واقعہ یا سانحہ ہوا تو اس کے چند گھنٹے بعد میں بلوچستان کی سیاست کے ایک مقتدر قوم پرست رہنما کے ساتھ بیٹھا تھا، جو ایک طویل عرصے پاور کوریڈور کا حصہ رہے۔اپنے موبائل فون میں چند منٹوں میں انہوں نے مجھے اپنے آبائی شہر تربت سے تعلق رکھنے والی خاتون خودکش حملہ آور اور ان کے خاندان کی سیاسی وابستگی کی تفصیل بیان کرنی شروع کی، تو میں دہل کر رہ گیا۔ان کا کہنا تھا کہ برسوں سے بلوچستان میں جاری مزاحمتی تحریکیں اب آواران، نوشکی، گوادر سے کوہلو تک اتنی منظم ہوچکی ہیں، اور صورتحال اس قدر خراب ہے کہ مستقبل میں ہونے والے بلدیاتی اور شاید 2023ء کے عام انتخابات میں ان کی پارٹی ہی کے لیے نہیں بلکہ موجودہ سیاسی منظرنامے میں موجود بلوچ اور پشتون سیاسی جماعتوں کے لیے انتخابی مہم چلانا بھی ممکن نہیں ہوگا۔
کنفیوشس انسٹیٹیوٹ پر خودکش حملہ کرنے والی بلوچ خاتون کو بلوچستان کی 7 دہائیوں پر محیط ہنگامہ خیز سیاست میں ایک ٹرننگ پوائنٹ کہا جائے گا کہ قیامِ پاکستان کے بعد چلنے والی مزاحمتی تحریکوں میں خواتین کو ہمیشہ پس منظر میں رکھا گیا۔ اگرچہ قومی و صوبائی اسمبلیوں اور قوم پرست جماعتوں میں خواتین سرگرم تو نظر آتی رہیں مگر بلوچستان کے مخصوص قبائلی روایتی معاشرے میں خواتین کا کردار ثانوی ہی رہا۔
پہلی بلوچ خاتون حملہ آور شاری بلوچ کی اس حد تک جانے کی مہم جوئی کا افسوسناک امر یہ ہے کہ ہمارے سول ملٹری ادارے اسے ایک مخصوص عینک اور محدود تناظر میں دیکھ رہے ہیں اور وہ اس بات سے صرف نظر رکھے ہوئے ہیں کہ یہ 70ء کی دہائی نہیں کہ جب پہاڑوں پر مسلح جدوجہد کرنے والی نیشنل عوامی پارٹی کی قیادت جب حیدر آباد جیل میں برسہا برس مقید تھی، تو اس وقت بھی ان سے مذاکرات کی کھڑکی کھلی تھی۔حیدرآباد جیل میں دہائیوں سے مزاحمتی تحریک کی قیادت کرنے والے میر غوث بخش بزنجو، نواب خیر بخش مری، سردار عطااللہ منگل (یہاں میں پشتون قیادت کا ذکر نہیں کروں گا کہ یہ ان کی مزاحمتی تحریک میں عسکریت پسندی کا ایک الگ ہی منظر ہے)۔
حیدرآباد جیل میں قیدوبند کی صعوبتوں اور اپنے پیاروں اور عزیزوں کی شہادتوں کے باوجود ’بھٹو سے کچھ لو اور کچھ دو‘ کی امید رکھتے مگر بھٹو صاحب اپنے سوہنے منڈوں اور سول ملٹری انتہا پسند مشیروں کے چنگل سے نکل کر بات چیت کے لیے اس وقت تیار ہوئے جب بہت دیر ہوچکی تھی اور خود ان کا اقتدار آخری ہچکیوں پر تھا۔
بلوچ قیادت کو اس کا ادراک ہوچکا تھا کہ اپنے آخری دنوں میں وزیرِاعظم بھٹو کے پاس اب ان کو دینے کے لیے کچھ رہ بھی نہیں گیا تھا۔ پھر بلوچستان کی مزاحمتی تحریک کے 3 بلکہ 4 بڑے یعنی بگٹی، مینگل، مری اور بزنجو کی حیدرآباد جیل میں مسلسل سختیوں اور صعوبتوں کو جھیلتے ’نوجوان‘ ان کی ناصحانہ گفتگو سننے کے لیے تیار نہیں تھے بلکہ اس دوران وہ اس راستے پر چل پڑے کہ جس میں ہر راستہ مقتل سے گزر کر جاتا ہے۔
بلوچستان کے 4 بڑے جب بھٹو حکومت کے خاتمے کے بعد جیلوں سے باہر نکلے تو معذرت کے ساتھ وہ بڑی حد تک مزاحمتی سیاست سے تھک چکے تھے۔ نواب اکبر خان بگٹی تو پہلے ہی اپنی الگ راہ اختیار کرچکے تھے، سردار عطااللہ مینگل اپنے صاحبزادوں کے ساتھ لندن جا بسے تھے۔ نواب خیر بخش اور شیر محمد مری کابل میں برسوں کی جلاوطنی کے بعد ضیاالحق کے دور میں واپس اپنے وطن آئے تو ہارے ہوئے سپاہی تھے، مگر بلوچ طلبہ کی مضبوط طاقتور نظریاتی تنظیم بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن (بی ایس او) اپنے بڑوں کے ’چھتر سایہ‘ سے نکل کر اس نتیجے پر پہنچ چکی تھی کہ انہیں اب مزید اسلام آباد سے کچھ نہیں ملنا۔
بی ایس او کے بیشتر بڑے اپنی نظر بندی اور انڈر گراؤنڈ ہونے کے دوران کابل کے راستے ماسکو سے رشتے استوار کرکے اپنی علیحدہ شناخت بنا چکے تھے۔ 80ء اور 90ء کی دہائی میں توڑ پھوڑ اور تقسیم در تقسیم ہوئی۔ اس سے عملاً 5 دہائی سے راج کرنے والی روایتی قوم پرست قیادت کی بلوچستان پر گرفت کمزور پڑ چکی تھی۔
جنرل ضیاالحق کی موت کے بعد 1988ء میں ہونے والے پہلے انتخابات میں بلوچستان میں نیشنل عوامی پارٹی سے نکلنے والی بکھری جماعتوں کے ہاتھ بمشکل ایک چوتھائی نشستیں آئیں۔ 90ء کی دہائی کا بلوچستان ملک کے دیگر صوبوں سے مختلف نہیں تھا مگر 2006ء میں سابق صدر پرویز مشرف کے دور میں نواب اکبر بگٹی کا قتل جس طرح ہوا، اس نے ایک بار پھر بلوچ مزاحمتی تحریک کو زندہ کردیا اور زیادہ قابلِ ذکر بات یہ کہ مزاحمتی تحریک یا عسکریت پسندی کا پرچم اٹھائے مری، مینگل، بگٹی کی آل اولاد کے ساتھ بی ایس او سے وابستہ نوجوان، بغیر کسی لگی لپٹی یہ پیغام دیتے ہیں کہ وہ مزید کسی صوبائی و قومی مختاری کی نعرہ بازی کے بجائے اب اپنا مستقبل آزاد بلوچستان میں دیکھتے ہیں۔
2013ء میں ڈاکٹر مالک بلوچ کی حکومت ناراض بلوچ کو راضی کرنے کی کوشش کرتی ہے مگر ڈاکٹر مالک نے ایک حالیہ گفتگو میں بتایا کہ اسٹیبلشمنٹ کا رویہ اس بارے میں سردمہری کا رہا۔
حالیہ برسوں میں ایران اور افغانستان بارڈر کے اِس طرف اور اْس طرف سرگرم 3 بڑی کالعدم عسکریت پسند تنظیموں میں سب سے سرگرم تنظیم بلوچ ریپبلکن آرمی (بی آر اے) ہے جس کے سربراہ بی ایس او کے سابق رہنما ڈاکٹر اللہ نذر ہیں، جنہیں اس وقت کی مزاحمتی تحریکوں میں مالی و عسکری اعتبار سے مالا مال اور منظم سمجھا جاتا ہے۔ پرل کونٹینینٹل (پی سی) گوادر، سیرینا ہوٹل اسلام آباد، چینی قونصلیٹ اور اسٹاک ایکسچینج کراچی پر ہونے والے حملوں سے زیادہ سنگین اور اہمیت کا حامل کنفیوشس انسٹیٹیوٹ کے باہر ہونے والا حملہ ہے کیونکہ اس میں ناصرف ایک بلوچ خاتون کا استعمال ہوا بلکہ زیرِ زمین منظم نیٹ ورک بھی واضح ہوگیا۔
یہ کہنا آسان ہے اور اسے سادگی کے زمرے میں کہا جائے گا کہ اس عسکریت پسندی کے پیچھے بھارت اور افغان عسکری و مالی تعاون ہے لیکن یہ مسئلہ اس سے بڑھ کر سنگین اور گھمبیر ہے جسے شاید اس وقت اسلام آباد میں بیٹھے یا تو سمجھنا نہیں چاہتے یا اس سے آگاہ نہیں۔