سازش ایک ایسا طریقہ یا ذریعہ ہے کہ جس میں چند افراد خفیہ اور رازدارانہ طریقہ سے کوئی تبدیلی لانا چاتے ہیں۔ یہ تبدیلی یا تو ان کے ذاتی مفادات کیلئے ہوتی ہے یا نظریاتی طور پر اس کے ذریعہ سے حالات کو تبدیل کرنے کی کوشش ہوتی ہے۔ اگرچہ سازش کی اصطلاح کا استعمال منفی معنوں میں ہوتا ہے مگر ایسے واقعات بھی ہیں کہ جن میں سازش کو مثبت طور پر بھی استعمال کیا گیا ہے۔
سازش کا استعمال ان معاشروں میں ہوتا ہے کہ جہاں سیاسی تبدیلی کے راستے یا تو محدود ہوتے ہیں یا بالکل بند کر دیئے جاتے ہیں۔ چنانچہ دور بادشاہت میں سیاسی تبدیلی کا سب سے موثر ذریعہ سازش ہوا کرتا تھا۔ اسی لئے اردو میں ” محلاتی سازش” کی اصطلاح مقبول عام ہے۔ کیونکہ سیاسی خاندان کی تبدیلی یا تو جنگ کے ذریعے سے ہوتی تھی یا سازش کے ذریعہ سے۔ مثلاََ ہندوستان کی تاریخ میں خصوصیت سے عہد سلاطین میں یہ مثالیں بہت ہیں جیسا کہ جلال الدین خلجی نے کیقباد کو قتل کیا تو اس کے بھتیجے علاء الدین نے سازش کے ذریعہ اسے قتل کیا اور تخت پر قبضہ کر لیا۔ عہد مغلیہ میں ہر بادشاہ کے مرنے کے بعد پر یہ سازشیں نظر آتی ہیں۔
بادشاہت کے دور میں تو یہ سازشیں محلات تک محدود رہتی تھیں اور عوام سے ان کا تعلق نہیں ہوتا تھا۔ ان کے ذریعہ اگر اگر تبدیلی بھی آتی تو وہ محلات تک ہی محدود رہتی تھی مگر اس میں یہ خطرہ ضرور تھا کہ اگر سازش ناکام ہو جاتی تھی تو سازشیوں کو جان سے ہاتھ دھونے پڑتے تھے۔
پاکستان بننے کے بعد محلاتی سازشوں کا یہ سلسلہ یہاں بھی جاری ہو گیا کیونکہ جو لوگ اچانک صاحب اقتدار ہو گئے تھے وہ نہیں چاہتے تھے کہ حکومت ان کے ہاتھ سے نکل کر دوسروں کے پاس جائے ،اس لئے انہوں نے جمہوری اداروں اور روایات کو یہاں جڑ نہیں پکڑنے دی اور سازشوں کے ذریعہ اپنے اقتدار کو طول دیتے رہے۔
ملک غلام محمد (گورنر جنرل) نے اسی طرح کے سازشی ذہن کے تحت اسمبلی توڑی، اور وزیر اعظم کو ہٹایا اور اپنی پسند کے لوگوں کو اعلٰی عہدے دیئے۔ جب کسی معاشرے میں سازشیں ہی تبدیلی کا واحد ذریعہ رہ جائیں تو پھر اقتدار کے خواہش مند اسی کو اختیار کرتے ہیں۔ اس لئے ہمارے ہاں سازشوں کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ چل نکلاہے کہ جو اب تک جاری ہے۔
اسی طرح ہم دیکھتے ہیں کہ ملک غلام محمد کو اسکندر مرزا نے سازش کرکے ہٹایا۔ اسے ایوب خان نے فوجی سازش کرکے جلا وطن کیا۔ ایوب خان بھٹو کی سازش کا شکار ہوئے، بھٹو ضیاء الحق کے دام میں گرفتار ہوئے اور پھر آٹھویں ترمیم سازش کیلئے استعمال ہوئی جس کے تحت دو مرتبہ بے نظیر بھٹو اور ایک مرتبہ نواز شریف اقتدار سے محروم ہوئے اور یہ سلسلہ ابھی ختم نہیں ہوا بلکہ سازش در سازش کی تہوں میں آج بھی اقتدار کی جنگ جاری ہے۔