آج یکم مئی ہے مزدوروں کا عالمی دن ہے ۔ عہد و پیما کا دن ہے آج مزدور اپنی عہد کی تجدید کریں کہ ہم اپنے جائز اور قانونی حقوق ان غاصبوں سے لے کر رئینگے ۔ مزدور نہایت کسمپرسی کے حالات میں زندگی گزار رہے تھے مزدور کیلئے نہ کو ئی قانون تھا نہ کوئی چھٹی نہ مراعات ۔ حتیٰ کہ 16سے 18گھنٹے کام لیاجاتا تھا ۔ ملازمت کا کوئی تحفظ نہ تھا۔ 1780ء میں برطانیہ میں صنعتی انقلاب نے جنم لیا تو ساری دُنیا کی معیشت پر اس کے اثرات مرتب ہونا شروع ہوگئے جاگیر داراور سرمایہ طبقہ اس میدان عمل میں آگیا جو کہ پہلے سے اپنے بزگر اوردھکان کو اپنا غلام سمجھتے تھے معمولی بات پر کڑی سزا دی جاتی تھی ۔ اپنے حق کیلئے آوازبلند کرنے پر ملازم برطرف کر دیا جاتا تھا۔
اس ظلم و جبر کے خلاف 8گھنٹے اوقات کار مقررکرنے کیلئے یکم مئی 1886ء کو امریکہ کے شہر شکاگو میں مزدوروں نے آواز بلند کی اور ہڑتال کر دیامزدور اپنی حقوق کیلئے احتجاج کر رہے تھے ۔ کہ مئی کو شکاگو کے علاقے نیمار گیٹ کے چوک پر فیکٹری میں گُس کر حکومت کی ایماء اور سرمایہ داروں کی ملی بھگت سے نہتے اور بے گناہ مزدوروں پر گولیاں برسائی گئیں اور نصف درجن سے زیادہ تعداد میں مزدور شہید کردیئے ۔
ان میں ایک مزدور کے اپنی قمیص کو مزدور کے خون سے رنگ کے عَلم بنا لیا اور اس طرح سرخ جھنڈے کو مزدور کا عالمی نشان بنایا اور اس ظلم بریت ، حکومت ، سرمایہ دار اور پولیس کی دہشت گردی کے خلاف04تاریخ کو ہیمارکیٹ Hey Marketمیں مزدور وں نے اپنی ریلی نکالی جنکا نعرہ تا کہ 8گھنٹے اوقات کار مقرر کئے جائیں ۔ لیکن سرمایہ دار اور حکومت کو یہ ہرگز منظور نہ تھا۔ اسی دوران حکومت کے ایما ء پربم دھماکہ کر دیا جس سے ایک پولیس اہلکار ہلاک اور کچھ زخمی ہوگئے جس سے پولیس والے زیادہ اشعال اور غصے میں آگئے اور مزدوروں پر فائرنگ کر دیا جس سے سینکڑوں مزدور شہید اور زخمی ہوگئے ۔ اس ظالمانہ عمل کے بعد پولیس نے مزدور رہنمائوں آگسٹ سپائس ، اڈویلف فشر، جارج اینگل اور البرٹ Rپارسن کو گرفتار کر لیا گیا اور تحریک کو دبانے کیلئے 07نومبر1887ء کو تختہ دار پر چڑھایا گیا ۔
جنہوں نے نہایت دلیری سے پھانسی کے پندے کو گلے میں ڈالتے ہوئے یہ الفاظ کئے کہ تم ہماری جان تو لے سکتے ہو مگر ہماری آواز نہیں دبا سکتے تب سے یہ تمام مزدورآواز ہوگئی مزدوروںکی یہ قربانی رائیگا نہیں گئی اور اس طرح اس تحریک نے تمام دُنیا کو اپنے لپیٹ میں لے لیا اور پورے یورپ امریکہ میں مزدوروں نے احتجاج شروع کردیا اور اس طرح شکاگو کے مزدوروں کی قربانی سے حکومت وقت سرمایہ دار نے مجبور ہوکر 8گھنٹے اوقات کار مقرر کردیئے اور اس کے نتیجے میں بین الاقوامی قوانین مرتب ہوئے جس کے تحت ہفتہ وار چھٹی ، بیماری ، اتفاقیہ چھٹی سالانہ چھٹیوں کو حق اور طبعی سہولتوں کے علاوہ دیگر مراعات کا اعلان کیا گیا ۔
یکم مئی کو مزدوروں کا عالمی دن تسلیم کیا گیا یہ تمام قربانیاں شکاگو کے اُن شہداء کی ہیں جنہوں نے جانوں کی قربانیاں دیکر ہمارے لئے اوقات کار مقرر کئے بلکہ اقوام متحدہ کا ایک ادارہ ILOانٹرنیشنل لیبر آئرگنائزیشن کا ادارہ قائم کیا جو کہ تمام ممبر ممالک کی نمائندہ تنظیم ہے جس میں پاکستان سے ظہور احمد اعوان اسکی گورننگ باڈی کا ممبر ہے ۔
یہ ادارہ مزدوروں کیلئے کنونشن پاس کرتا ہے اور ممبر ممالک اس کی تصدیق کیلئے عمل درآمد کرتے ہیں آج جو قانون IRA,BRA,EOBIسوشل سیکورٹی ورکرز ویلفیئر فنڈز ، ورکر کمیشن ایکٹ ، مائنز ایکٹ 1923ء فیکٹری ایکٹ 1934ء اور ٹریڈ یونین کی آزادی یہ تمام قوانین و مراعات شکاگو کے شہیدوں کے مرہون منت ہیں لیکن یہ امر افسوس ناک ہے کہ بلوچستان ہائی کورٹ نے 60یونین پر پابندی عائد کی ہے ۔ جس کے لئے ٹریڈ یونین جدو جہد کر رہی ہیں۔ لیکن عدالت کو بھی بین الاقوامی قوانین کی پاسداری کرنی چاہئے ۔ اور یونینز پر پابندی ختم کر دینی چاہئے ۔
چونکہ ہم نیم جاگیر داری اور نیم سرمایہ داری سماج میں زندگی گزار رہے ہیں ۔ آج بھی 16سے18گھنٹے کام لیا جاتا ہے اور معمولی معاوضہ میں دیا جاتا ہے اور گورنمنٹ نے کم سے کم 25ہزار روپے کر دی لیکن اس کا اطلاق کو فیکٹری ملازمین یا منظم مزدور پر ہوگا ۔ وہ غیر منظم مزدور جو کہ روازنہ کی اجرت پر کام کرتا ہے وہ بُری حالات سے دو چار ہیں ۔ 1988 ء کے دور امریت تک مزدور نعرہ لگاتاتھاکہ مزدور کی تنخواہ 1تولہ سونے کے برابر کیا جائے ۔ مگر یہ نعرہ ایسے دب گیا کہ کوئی یونین یہ نعرہ نہیں لگاتے وجہ یہ ہے کہ ضیاء آمریت کے دور میں اسمبلی ممبران کو فنڈ دے کر کرپٹ کر دیا اور ٹریڈ یونین پر اس کے منفی اثرات مرتب ہوئے جس کی وجہ سے ٹریڈ یونین بھی مافیا کی شکل اختیار کر گئی اور مزدور رہنمائوں میں بہتی گنگا میں ہاتھ دھونا شروع کردیئے وہ ادارہ جو کہ مزدور انقلاب کی بنیا د تھا جس نے مزدور حکومت قائم کرنی تھی وہ مصلحت او ر کرپشن کا شکار ہوگیا اور مزدور دن بدن غربت کا شکار ہوگیا ۔ آج حالات یہ ہیں کہ مزدور اپنے آپ سے بیزار ہیں۔
کاش ہمار ے ملک کی عدلیہ ، اسٹیبلشمنٹ اور حکومت اپنے اختیارات کو قانون کے مطابق استعمال کرے ۔ قانون ساز اسمبلی میں مزدور کی بھی بات سُنی جائے اور مہنگائی کرنے سے پہلے سہ فریقی کانفرنس کا انعقاد کیا جائے مزدور نمائندوں سے بھی مشاورت کی جائے تاکہ اس مہنگائی سے مزدور کی زندگی پر کیا اثرات مرت ہونگے اور اس کا حل کیا جائے تو شاہد مزدور نمائندے بہترین تجویز دے سکے ۔ افسوس کی بات ہے کہ امریت کے دور میں سہ فریقی کانفرنس کا انعقاد کیا جا تا رہا مگر جمہوری دور میں ہمارے نمائندے اپنے آپ کو عقل کل سمجھتے ہوئے کبھی بھی سہ فریقی قانون پر عمل نہیں کیا۔ حالانکہ مزدور نمائندوں میں ایسے اعلیٰ دانشور موجود ہیں جو کہ حکومت کو بہترین مشورہ دے سکتے ہیں۔ لہٰذا حکومت آنکھیں کھولے اور ہر معاملہ مزدور نمائندہ تنظیم سے مشاورت کرے تاکہ ملک پر 50فیصد مزدوروں کی نمائندگی ہوسکے۔