ریکو ڈک بلو چستان کے ضلع چاغی کا ایک چھوٹا گاؤں ہے۔یہ نوکنڈی کے شمال مغرب میں 70 میل دور ایران افغا نستان کے بارڈر پر واقع ہے۔ضلع چا غی کی آ بادی 1998 کی مردم شماری کے مطابق 202562 تھی۔اس کے علاوہ یہاں53000 ہزار کے قریب افغان مہاجر بھی آباد ہیں۔گر میوں میں یہاں کا درجہ ہرارت 40-50 سنٹی گریٹ اور سردیوں میں منفی 10 سنٹی گریٹ تک جا سکتاہے۔ سالانہ بارش 40 ملی میٹر سے بھی کم ہے۔ریکو ڈک ’’ ٹی تھیان میگنیٹک آرک ‘‘میں واقع ہے ، یہ آرک مشرقی یورپ سے لے کرترکی ،ایران، بلو چستان کا ضلع چاغی ، ہما لیہ ، برما، ملا ئیشیا، انڈو نیشیا اور پا پوا نیو گنی تک پھیلی ہوئی ہے۔بلو چستان میں یہ معدنی زون کو ئٹہ تفتان ریلوے لائن اور افغانستان بارڈر کے ما بین چاغی کے آتش فشاں پہاڑی سلسلوں میں واقع ہے۔ٹی تھیان کمپنی کے مطابق ریکو ڈک میں دنیا کی پانچویں بڑی آ تش فشانی تانبے اور سونے کے ذخائر موجود ہیں۔
ایک اندازے کے مطابق ان ذخائرکا کل تخمینہ 5.9 بلین ٹن ہے۔جس میں 12.3 ملین ٹن تانبا اور660 ٹن سونا ہے۔اسکے علاوہ 14 دوسری آتش فشانی قیمتی معد نیات کم مقدار میں بھی موجود ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق معد نیات کا کل تخمینہ تقریبا ایک ٹریلین ڈالر بتا یا جا تاہے ۔ما ئننگ ایریا 13000 مربع کلو میٹر ہے ۔ریکوڈک کا پہلا معاہدہ حکومت بلو چستان اور آسٹریلیا کے بروکن ہل پروپرئیٹری منرلز(Broken Hill Proprietary Minrals ) کے ما بین 1993 میں طے پا یا۔جسے چا غی ہلز ایکس پلو ریشن جا ئنٹ وینچر اگر یمنٹ (Chaghi Hill Exploration Joint Venture Agreement “CHEJVA”)کا نام دیا گیا.اس معاہدے کے مطابق کمپنی کا حصہ 75% اور بلو چستان کا 25% تھا ۔ مزید بلو چستان کو 2% را ئیلٹی دی گئی ، جو دھات کی انٹرنیشنل مار کیٹ میں فروخت کے کل رقم پر ملنی تھی ۔گوکہ عالمی سطح پر تسلیم شدہ را ئیلٹی 6% ہے ۔اس معاہدے کے مطابق حکو مت بلوچستان کو کوئی سرمایہ کاری نہیں کر نی تھی۔ کمپنی کو 1000 مربع کلو میٹر 55 سال کے لیئے دی گئی۔سات سال تک کام شروع نہ ہوسکا آ خر کار بی ایچ پی نے اپنا 75% حصہ آسٹریلیا کے منکر ریسورسز( Mincor Resources ) کو بیچ دی۔منکر نے 2006 میں ٹی تھیان کاپر کمپنی (Tithian Copper Company ) کھڑی کی، جو چلی کی انتو فاگسٹا (Antofagasta ) اور کینیڈا کی بیرک گولڈکا ر پو ریشن (Barric Gold Corporation ) پر مشتمل تھی۔
جنکا 75% میں حصہ آدھا آدھاحصہ تھااور بلو چستان کا حصہ وہی 25% اور2% رائیلٹی تھی۔اسی دوران ایک ایٹمی سا ئنسدان ڈا کٹر ثمر مبارکمند نے اپنی ٹیم کے ساتھ ریکوڈک میں کام کر نے کی پیشکش کی ۔انکا دعویٰ تھا کہ جس طرح ہم نے ملک کو ایٹمی طاقت بنا یا اسی طرح اب اسے معاشی طاقت بنا ئیں گے۔2006 میں مکران سے ایم این اے مولا نا عبدالحق مرحوم نے 1993 میں ہو نے والے ’’ چجوا‘‘ معاہدے کی قانونی حیثیت کو کورٹ میںچیلنج کیا۔بلو چستان ہائی کورٹ نے مولانا کی درخواست خارج کی۔ مولانا سپریم کورٹ چلے گئے۔سپریم کورٹ نے 7 جنوری 2013 کو اپنے فیصلے میں ’’چجوا ‘‘ معاہدے کو غیر قانونی قرار دیا۔اس سے پہلے سابق وزیر اعلیٰ بلو چستان نواب اسلم رئیسانی نے2011 میں اس معاہدے پرعمل کرنے سے انکارکیا تھا ۔نواب صاحب نے حال ہی میں اخبار نویسوں سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ میری حکومت کو اس لیئے بر خاست کیا گیا کہ میں نے کمپنی سے ریفائنری بلوچستان میں لگانے اور شفا فیت کو یقینی بنانے کا مطا لبہ کیا تھا۔سپریم کورٹ سے معا ہدہ ختم ہو نے کے بعد ٹی تھیان کمپنی نے عالمی بینک کی ثالثی عدالت (arbitration court ) میں 11.43 ارب ڈالرکے نقصان کا دعویٰ دائر کیا۔عدالت نے پاکستان پر 5.97 ارب ڈالر جرمانہ عائد کیا۔لندن کے ایک اور عدالت نے پاکستان پر مزید 4 ارب ڈالر کا جرمانہ لگایا۔اس طرح پاکستان پر کل 10 ارب ڈالر جرمانہ عائد ہوا۔ جرمانہ سے بچنے کے کئے پا کستان نے کمپنی سے مذاکرات کا آغاز کیا ۔آخرکار20 مارچ 2022 کوبلو چستان، وفاق اور کینیڈا کے بیرک گولڈکمپنی کے ما بین ریکو ڈک کادوسرا معاہدہ اسلام آ باد میں طے پا یا۔جس کے تحت چلی کی کمپنی انتو فا گستا معا ہدہ سے الگ ہو گئی ۔اور اپنے حصے کے جرمانے کی رقم 3.9 ارب ڈالر کی بجائے 900 ملین ڈالرلینے پر راضی ہوگئی ۔جنکی ادائیگی کی شروعات 31 مارچ 2022 مقرر کی گئی۔اور بقول وفاقی وزرا ئے خزانہ اور قدرتی وسائل بیرک گولڈ اپنے جر ما نے کے حصے سے دست بردار ہو گئی۔
یہ معا ہدہ ا بھی تک منظر عام نہیں آیا ۔ یہ بھی معلوم نہیں منرلزکی پروسسنگ کہاں ہوگی اور شفا فیت پر کیسے عمل ہوگا۔اس سے قبل سیندک منصوبہ میں شفا فیت کے بارے ہم چینیوں کی ایمانداری پر بھروسہ کر تے چلے آرہے ہیں۔وزیر اعلیٰ قدوس بزنجو نے صحا فیوں سے بات کرتے ہوئے بتایا بیرک گولڈ کمپنی کا حصہ 50% اوربلو چستان کا حصہ 25% ہے جس میں سے 10 فیصد بغیر تقسیم اور غیر شراکت دار حصہ ہے، 15 فیصد حکو مت بلو چستان کے خاص مقصد کی کمپنی کے ہیں(10% free-carried , non contributing shair held by the Govt. of Balochistan, an additional 15% held by a special purpose company owned by Govt. of Balochistan.)۔اور 25% حصہ وفاق کا ہے جومیڈیا رپورٹس کے مطابق فیڈرل گورنمنٹ کے تین انٹر پرائزز ،اوجی ڈی سی،پی پی ایل اور گورنمنٹ ہولڈنگ پا کستان لمیٹڈکو چلی کی انتو فیگستا کمپنی کی 900 ملین ڈالر کی ادائیگی کے عوض دیا گیاہے۔اس کے علاوہ بلو چستان کی را ئیلٹی 2% ہوگی۔ وزیر اعلیٰ کے مطابق کمپنی کو 100 مربع کلو میٹر ما ئنز ایریا 100 سال کے لئے دی گئی۔ کمپنی 10 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کرے گی اور 8000 نوکریاں ملیں گی۔پہلے کی طرح بلوچستان کو اس معاہدہ کے مطابق بھی کوئی سرمایہ کاری نہیں کر نی ہوگی۔مزید تفصیل پوچھنے پر وزیر اعلیٰ نے معذرت کا اظہار کر تے ہوئے بتایا کہ اسکے پاس معاہدے کی کاپی نہیںاور یقین دلایا کہ اس معاہدے کو جلد پبلک کیا جائیگا۔ وزیر اعلیٰ نے یہ بھی بتایا کہ مجھے دوبار صوبے میں گورنر راج لگانے کی دھمکی دی گئی۔ایسے معا ہدوں سے با خبر حلقوں کا کہنا ہے کہ یہ نا ممکن ہے کہ ملٹی نیشنل کمپنیاںجر مانے کی اتنی بڑی رقم پا کستان پر ترس کھا کر معاف کریں گی۔یہ اپنی رقم کئی گنا کر کے کسی نہ کسی شکل میں وصول کریں گی۔ان حلقوں کا کہنا ہے لگتا یہی ہے کہ کمپنیاں اپنی رقم ما ئنز کے منافے اور رائیلٹی سے سالوں تک کا ٹتی رہیں گی۔
پا کستان کے آ ئین کے مطابق معد نیات(minerals ) کا شعبہ (ماسوائے تیل اور گیس کے) مکمل صوبائی سبجیکٹ (subject ) ہے، لیکن مر کز نے کبھی بھی آ ئین کی پاسداری نہیں کی۔اٹھارویں تر میم کے بعد آئین کے آرٹیکل172(3) کے تحت’’ تیل اور گیس پربھی وفاق اور متعلقہ صوبہ جہاں تیل یا گیس دریافت ہو ،کا مشترک اوربرا برحق تسلیم کیا گیا‘‘۔لیکن 12 سال گزرنے کے باوجود وفاق اس پر عمل درآمدسے گریزاں ہے۔ ریکو ڈک معا ہدے میں 25 فیصد مر کز کو دیناسرا سر آئین کی خلاف ورزی ہے آئین کے مطابق یہ حصہ بھی بلوچستان کو ملنا چاہیئے۔اس سے قبل ضلع چاغی میں سیندک پرو جیکٹ جہاں ایک چینی کمپنی 2002 سے کام کر رہی ہے اورجہا ںسے سالانہ : سونا 1.5ٹن، چاندی 2.8ٹن، اور تانبا 158000 ٹن نکالا جا رہا ہے میں چین کا حصہ 50% وفاق کا 48% اور بلوچستان کا حصہ 2% ہے۔یہ آئین کی ایک اور صریحاً خلاف ورزی ہے۔یہ بات المیئے سے کم نہیں کہ بلو چستان کے اکثر وزرا ئے اعلیٰ صوبے کے عوام کی آ ئینی حقوق کے دفاع کی بجائے مرکز کی جانب سے آ ئین شکنی کا دفاع کر تے نظر آتے ہیں ۔صوبے کی دوسری سیاسی پارٹیاں بھی اس پر احتجاج کی بجائے خا موشی کو تر جیح دیتی ہیں۔