|

وقتِ اشاعت :   May 2 – 2022

پاکستان میں آزادی اظہار رائے ایک دیرینہ مسئلہ بنا ہوا ہے کسی بھی دور میں آزادی اظہار رائے کو برداشت نہیں کیا گیا بلکہ کالے قوانین کے ذریعے مزید سختیاں کی گئیں۔ جس معاشرے میں اس طرح کی صورتحال پیدا ہوجائے تو بھیانک نتائج برآمد ہوتے ہیں، جب حقائق کو تسلیم کرنے کی بجائے انہیںدبانے کی کوشش کی جائے تو اس کا نتیجہ خود ریاست کے حق میں نہیں جاتا بلکہ منفی پروپیگنڈے اور رجحان میں اضافہ ہوتا ہے۔

بدقسمتی یہی ہے کہ سب ہی جماعتیں آزادی اظہار رائے پر لمبی چھوڑی بھاشن دیتے ہیں مگر طاقت میں آتے ہی وہ اپنے خلاف حقائق پر مبنی تصویر کشی کو کسی صورت قبول نہیں کرتے بلکہ مختلف حربوں کے ذریعے قدغن لگانے کی کوشش کرتے ہیں اور سب اچھا ہے صرف یہی سننا پسند کرتے ہیں مگر اس کا نقصان جو معاشرتی حوالے سے سامنے آتا ہے وہ بھیانک قسم کا ہوتا ہے۔ ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان نے انسانی حقوق کے حوالے سے سالانہ رپورٹ جاری کردی۔ ایچ آر سی پی رپورٹ میں 2021 میں آزادی اظہار رائے کی حالت پر شدید تحفظات کا اظہار کیا گیا۔

2021 کے دوران کم از کم 9 واقعات میں صحافیوں کو ڈرایا دھمکایا گیا۔ ان کا کہنا تھاکہ پچھلی حکومت کو ظالمانہ پاکستان میڈیا ڈویلپمنٹ اتھارٹی آرڈیننس مسلط کرنے پر یاد رکھا جائے گا، بنیادی حق خطرات سے دوچار رہا اور دیگرتمام حقوق بھی پابندیوں کی زد میں رہے۔ آزادی اظہار رائے پر پابندیوں کا دائرہ کار بڑھانے کی ریاستی کوششوں سے غیرریاستی عناصر کو شہ ملی کہ وہ لوگوں پر اپنی خواہشات مسلط کرتے جو ان سے اتفاق نہیں کرتے۔ سیالکوٹ میں سری لنکن شہری کو توہین مذہب پر ہجوم کے ہاتھوں قتل کیا گیا،پیپلزپارٹی کے قانون سازوں کی طرف سے مبینہ طور پر ناظم جوکھیو کا وحشیانہ قتل ہوا۔ پچھلی حکومت میں صدارتی آرڈیننسز کی تعداد ظاہر کرتی ہے کہ سیاسی اتفاق نہ ہونے کے برابر تھا، حکومت نے 2021 کے دوران ریکارڈ 32 صدارتی آرڈیننس جاری کیے۔ جبری گمشدگی کوجرم قراردینے کا قانون دسمبر2021 کے اختتام تک منظورنہ ہوسکا، 2021 میں جبری گمشدگیوں کے سب سے زیادہ واقعات بلوچستان سے رپورٹ ہوئے، 2021 میں جبری گمشدگی کے بلوچستان سے 1108 کیس رپورٹ ہوئے۔ ملک میں بڑھتی ہوئی مذہبی بنیاد پرستی شدید تشویش کا باعث بنی رہی، جنسی زیادتی کے 5279 واقعات اور غیرت کے نام پر 478 قتل ہوئے۔

قانون سازی کے لحاظ سے پنجاب اسمبلی کی کارکردگی بد تر رہی، وفاقی حکومت نے قانون سازی بلڈوز کی، عدالتوں میں ایک لاکھ پچاسی ہزار مقدمات زیر التوا ہیں۔ بچوں کے ساتھ بد سلوکی کے 1896 واقعات ہوئے، 1084جنسی واقعات، 523 اغوااور 258 بچوں کی گمشدگی کے واقعات رپورٹ ہوئے۔ انسانی حقوق کی تنظیموں کی جانب سے رپورٹ واضح کرتی ہے کہ انسانی حقوق کے حوالے سے کسی قسم کی تبدیلی نہیں آئی بلکہ اس میں شدت آئی ہے انسانی حقوق ایک اہم مسئلہ ہے جب تک اسے بہتر نہیں کیا جائے گا معاشرہ مزید زوال پذیر ہوگا۔ یہ تمام مکاتب فکر کی ذمہ داری بنتی ہے کہ انسانی حقوق پر مشترکہ طور پر کام کریں خاص کر آزادی اظہار رائے پر کسی طرح کی پابندی نہ لگائیں جو سماجی اور معاشرتی حوالے سے مزید تباہی پھیلائے ۔امید ہے کہ موجودہ حکومت سمیت تمام مکاتب فکر ملکر پرانی فرسودہ سوچ کو ختم کرکے ایک نئی تاریخ رقم کرکے انسانی حقوق کی پامالی کو روکنے کیلئے کام کرینگے۔