|

وقتِ اشاعت :   May 6 – 2022

کوئٹہ: بلوچستان کے ادیبوں،دانشوروں اور صحافیوں نے کہا ہے کہ وقت کی تلوار سے تاریخ پر ضرب لگانی ہوگی اس سے پہلے کہ تاریخ ہمیں گمنام کردے ہم اپنی مادری زبانوں میں بولیں اور لکھیں گے تویہ زبانیں زندہ رہیں گی ہمیں اپنی مادری زبانوں پر عبور ہونا چاہئے بلوچستان میں علمی کرپشن کے تدارک کے لئے بھی کوئی ادارہ قائم ہونا چاہئے۔

یہ بات کوئٹہ کوئٹہ پریس کلب کے صدر عبدالخالق رند ، براہوئی اکیڈمی کے چیئرمین صلاح الدین مینگل،سابق چیف سیکرٹری بلوچستان احمد بخش لہڑی ، سابق سیکرٹری و کمشنر کوئٹہ نسیم لہڑی ، سرور جاوید ، پی ایف یو جے کے صدر شہزادہ ذوالفقار احمدزئی ، ڈاکٹر عبدالرئوف رفیقی ، پی ایف یو جے کے سینئر نائب صدر سلیم شاہد ، پروفیسر نسیم اختر ، ڈاکٹر عرفان بیگ ، میاں منیر ، پروفیسر محمد اکبر ساسولی اور سلطان احمد شاہوانی نے براہوئی اکیڈمی کے چیئرمین سابق ایڈووکیٹ جنرل صلاح الدین مینگل کی پچاس سالہ ادبی خدمات پر مشتمل کتاب کی تقریب رونمائی سے خطاب کرتے ہوئے کہی۔ اس موقع پر بلوچستان کے مختلف علاقوں سے آئے ہوئے ادیب و دانشور بھی موجود تھے۔

کوئٹہ پریس کلب کے صدر عبدالخالق رند نے صلاح الدین مینگل کی ادبی ، قانونی ، سماجی اور صحافتی شعبوں میں خدمات کو سراہتے ہوئے کہا کہ جہاں زبانیں مٹ جاتی ہیں وہاں قوموں کی شناخت بھی برقرار نہیں رہ سکتی ، اپنی شناخت کو برقرار رکھنے کے لئے اپنی زبانوں کو زندہ رکھنا ہوگا ، ہمیں اپنی زبانوں سے محبت کرتے ہوئے اس میں لکھنا اور بولنا ہوگا ، انہوں نے کہاکہ وہی قومیں ترقی کی منازل طے کرتی ہیں جو نتائج کی پرواہ کئے بغیر آگے بڑھنے کا عزم رکھتی ہیں ، تقریب سے سابق ایڈووکیٹ جنرل و براہوئی اکیڈمی کے چیئرمین صلاح الدین مینگل نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ انہوں نے ایک ایسے وقت میں براہوئی زبان کی ترقی و ترویج کا بیڑا اٹھایا

جب یونیسکو کی ایک تحقیق میں یہ کہا گیا تھا کہ جہاں دیگر زبانیں معدوم ہونے کی خطرات ہونے سے دوچار ہیں وہیں براہوئی زبان کو بھی یہ خطرات لاحق ہیں انہوں نے کہاکہ انہوں نے براہوئی زبان کو دیگر زبانوں کے برابر حق دلانے کے لئے کوششوں کا آغاز کیا جو ہمارا بنیادی و انسانی حق بھی ہے انہوں نے کہاکہ وہ براہوئی زبان کو کسی حد تک اس کا حق دلانے میں کامیاب ہوئے ہیں مگر ابھی بھی ایک طویل جدوجہد کی ضرورت ہے انہوں نے ادیبوں اور دانشوروں کو مخاطب کرتے ہوئے کہاکہ اب یہ ذمہ داری ان کی ہے کہ وہ اس مشن کو آگے لے کر بڑھیں۔ انہوں نے کہا کہ انہوں نے نصف صدی تک براہوئی زبان اور ادب کی خدمت کی ہے اب وہ چاہتے ہیں کہ خدمت کا یہ موقع نوجوان نسل کے سپرد کیا جائے انہوں نے ادبی خدمات سے سبکدوش ہونے کے عندیہ دیتے ہوئے کہا کہ اب وہ سیاست میں آنا چاہتے ہیں۔