ملک میں آئین اور قانون کی بالادستی کے بغیر کوئی بھی ادارہ مستحکم نہیں ہوسکتا اور نہ ہی ملک ترقی کی راہ پر گامزن ہوسکتا ہے جبکہ اندرون خانہ سیاسی استحکام کا بھی براہ راست تعلق اس سے ہے اور عام لوگوں کے مسائل بھی اسی سے جڑے ہوئے ہیں۔ جب آئین اور قانون کی بالادستی کو بالائے طاق رکھتے۔
ہوئے شہنشاہیت نفسیات کا رویہ اپنایاجائے تو وہ ممالک کے لیے تباہی وبربادی کے اسباب بن جاتے ہیں تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ شہنشاہیت سے لیکر آمرانہ نظام جن ممالک میں رہا ہے وہ تباہی سے دوچار ہوئے ہیں ہمارے ملک کا پورا نظام جمہوریت کے بل بوتے پر ہے جو مغرب کی طرز پر ہے مگر بدقسمتی سے اس نظام کو مستحکم کرناسیاسی جماعتوںکا کام تھا جس کے لیے ان کا کردار انتہائی منفی رہا ہے اقتدار میں چور درواز ے سے آنے کی کوشش کی گئی ،شارٹ کٹ راستے اپنائے گئے ،اداروں کو اپنے سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کیا گیا جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ملک سیاسی عدم استحکام اور بحرانات سے دوچار ہوگیا۔
آج پھر ایک بار وہ نظارہ دیکھنے کو مل رہا ہے جب سے سابق وزیراعظم کو فارغ کیا گیا ہے وہ مسلسل غلط فہمیاں پیدا کرنے کے ساتھ گمراہ کن پروپیگنڈہ عوام میں پھیلارہا ہے عمران خان جس طرح سے وزیراعظم کی کرسی تک پہنچے یہ کسی سے ڈھکی چھپی بات نہیں ،موصوف اصول اور نظریات کی بات آج جس طرح سے کررہے ہیں لوٹا کریسی ، خودداری کے دعوے دیکھنے کو مل رہے ہیں سب کوپتہ ہے کہ آئی ایم ایف سے لیکر امریکہ اور دیگر ممالک کے ساتھ تعلقات کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگایا گیا ،یقینا ہر ملک کے اپنے مفادات ہوتے ہیں اور وہ اسی بنیاد پر تعلقات قائم کرتے ہیں ضروری یہ نہیں ہے کہ ان کی غلامی کرنی ہے۔
بلکہ ان کے ساتھ جس طرح کی شرائط کے ساتھ تعلقات رکھنے کی خواہش کی جاتی ہے وہ مطالبات بھی پھر اسی طرح کے رکھتے ہیں جب معیار پر پورا نہیں اتراجاتا تو وہ اپنے راستے جدا کرلیتے ہیں۔آج عمران خان جس مقام پر پہنچا ہے اس کی وجہ ان کی اپنی سابقہ حکومتی پالیسیاںہیں اور اپنی جماعت کے اندر سے ہی ان کے خلاف بغاوت ان شخصیات نے کی جو عمران خان کے انتہائی قریب تھے۔ پی ٹی آئی کو بنانے کے لیے سرمایہ کاری سے لیکر حکومت بنانے تک ممبران کو کس طرح سے پی ٹی آئی میں لایاگیا۔
لوگوں کے ذہنوں میں آج بھی وہ حالات وواقعات تازہ ہیںا ور جس طرح کی سیاسی انتقامی کارروائیاں کی گئیں وہ بھی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہیں۔ اپنے اعمال کا سارا ملبہ اداروں پر ڈالنے سے قبل اپنی سیاسی پالیسیوں اور تاریخ پر بھی نظر دوڑانے کی ضرورت ہے جوکہ پی ٹی آئی کے چیئرمین اور ان کے رہنماء کبھی نہیں کرینگے ۔ اب جس طرح کے حالات پی ٹی آئی ملک کے اندر پیدا کرنا چاہتی ہے اس سے بہت خطرناک خدشات جنم لے رہے ہیں کہ ایسی نیت نظرآرہی ہے کہ ملک کو خانہ جنگی کی طرف دھکیلا جائے آپس میں عوام کو دست وگریباں کیاجائے جو کچھ مقدس مقام پر ہوا، اس کے بعد بھی یہ سلسلہ چلتا آرہا ہے۔
اور باقاعدہ ڈائریکشن دی جارہی ہے کہ لوگ ان کا پیچھا کرتے رہینگے اور ان کے خلاف نعرے بازی ہوتی رہے گی مگر اس سے بھی دوقدم آگے باقاعدہ دیگرسیاسی جماعتوں کے رہنماؤں پر مختلف مقامات پر حملہ آور بھی ہورہے ہیں اگر یہی سیاسی رویہ برقرار رہا تو یقینا عام انتخابات کے دوران مہم میں بہت سے واقعات رونما ہوسکتے ہیں۔ اگر ذمہ داری کا مظاہرہ نہ کیا گیا تو اس کا نتیجہ پی ٹی آئی کو بھی بھگتنا ہوگا کیونکہ جو آگ لگاتے ہیں یا پتھر مارتے ہیں تو اس کی زد میں وہ خود بھی آتے ہیں خود کو محفوظ سمجھ کر احمقانہ سیاست سے گریز کرتے ہوئے مہذبانہ رویہ اپنانے کی ضرورت ہے۔