ملک میں گزشتہ چند برسوں کے دوران سیاستدانوں نے اپنے مفادات کی غرض سے اداروں میں یا تو براہ راست مداخلت کی ، اداروں کو اپنے تحفظ اور انتقامی کارروائیوں کیلئے استعمال کیا،اس طرح سے پورا نظام مفلوج ہوکر رہ گیا ہے نتیجہ یہ نکلا کہ ادارے اور حکومت کے درمیان تو خلیج پیدا ہوئی ساتھ ہی عوام کے اندر بھی اس زہر کو لایا گیا ۔
آج جس طرح سے سوشل میڈیا کے اندر غیرمہذبانہ روش اپناتے ہوئے زبانیں استعمال کی جارہی ہیں یہ تمام وہ سیاسی عوامل ہیں سیاسی جماعتوں کا مقصد اصول اور نظریات کے تحت اپنے منشور پر کام کرنا اور اپنے بل بوتے اورکارکردگی کی بنیاد پر عوام کا اعتمادحاصل کرکے اقتدار تک پہنچنا ہوتا ہے مگر افسوس کہ تاریخ بڑی بے رحم ہے ایک سے ایک پردہ اٹھ جاتا ہے اور یہ کام کوئی اور نہیں سیاستدان خود کرتے آئے ہیں مگر سبق کسی نے نہیں سیکھا اسی پرانی روش پر سب چل رہے ہیں، خدارا اب تو سیاستدان ہوش کے ناخن لیتے ہوئے ذاتی وگروہی مفادات سے نکل کر ملک اور عوام کا سوچیں ۔آج جو ملک میں بحرانات پیداہوئے ہیں اس کی سب سے بڑی وجہ سیاسی عدم استحکام ہی ہے۔
موجودہ حالات میں اسٹاک ایکسچینج کی صورتحال سامنے ہے، روپیہ اور ڈالر کے درمیان فرق واضح ہے، سرمایہ کاری سے لیکر پیداواری عمل کا نتیجہ بھی سامنے ہے کہ ملک اس وقت معاشی حوالے سے کہاں کھڑا ہے اور ملک میں مہنگائی کہاں تک جاپہنچی ہے ۔ان تمام عوامل کا جڑ کمزور سیاسی نظام ہے جس کا براہ راست تعلق پارلیمان سے ہے افسوس کہ پارلیمان کے اندر جو کام ہونے چاہئے تھے اس پر توجہ دی ہی نہیں گئی مفادات کے عوض پارلیمان کے تقدس کو بھی نہ بخشا گیا ،آج ادارے اس پر زیادہ وضاحتیں دے رہے ہیں سیاسی جماعتوں کی جنگ میں ادارے درمیان میں آرہے ہیں جو فیصلے آئین اور قانون کے تحت پارلیمان کے اندر ہونے چاہئیں مگر ایسا نہیں ہوا پھر لازمی بات ہے کہ دیگر آئینی ادارے اپنے فرائض سرانجام دینگے۔
مرکز اور پنجاب میں عدم اعتماد، گورنرشپ تک کے معاملے پر کس طرح سے آئینی کھلواڑکیاگیا یہ سب کے سامنے ہے آج جو عمل دہرایا جارہا ہے آنے والے وقت میں اسی مکافات عمل کا سامنا انہی کو کرنا پڑے گا۔ بہرحال گزشتہ روز سپریم کورٹ میں صدارتی ریفرنس کی سماعت کے دوران جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دئیے کہ ایک کہتا ہے آزاد عدلیہ چاہیے، دوسرا کہتا ہے آئین کے تابع عدلیہ چاہیے، آئین کے تابع پارلیمان، ایگزیکٹو اور عدلیہ ہونی چاہیے۔
چیف جسٹس پاکستان کی سربراہی میں پانچ رکنی لارجر بینچ نے آرٹیکل 63 اے کی تشریح کے لیے دائر صدارتی ریفرنس پر سماعت کی جس میں پی ٹی آئی کی طرف سے بابر اعوان نے دلائل دئیے۔بابر اعوان نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ یوٹیلیٹی بلز ادا نہ کرنے والا بھی رکنیت کا اہل نہیں ہوتا، اگر آرٹیکل 63 اے میں نااہلی کی مدت کا تعین نہ ہو تو نااہلی تاحیات ہوگی۔اس پر جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ کوئی امیدوار آئندہ الیکشن سے پہلے بل ادا کردے تو کیا۔
تب بھی نااہل ہوگا؟بل ادا کرنے کے بعد نااہلی ختم ہو جائے گی، آرٹیکل 62 ون ایف کے تحت ہی نااہلی تاحیات ہے۔جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دئیے کہ جب تک نااہلی کا ڈکلیریشن عدالت ختم نہ کرے نااہلی برقرار رہے گی، یوٹیلیٹی بلزکی عدم ادائیگی پرنااہلی تاحیات نہیں ہوسکتی۔جسٹس مظہر عالم خیل نے کہا کہ آپ کہتے ہیں منحرف ارکان کو تاحیات نااہل کریں، میری نظرمیں آرٹیکل 63 (1) جی کی خلاف ورزی زیادہ سنگین جرم ہے، آرٹیکل 63 (1) جی عدلیہ، فوج کی تضحیک اور نظریہ پاکستان سے متعلق ہے۔
جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دئیے کہ ایک کہتا ہے آزاد عدلیہ چاہیے، دوسرا کہتا ہے آئین کے تابع عدلیہ چاہیے، آئین کے تابع پارلیمان، ایگزیکٹو اور عدلیہ ہونی چاہیے۔البتہ سپریم کورٹ اپنا کام کررہی ہے اب پارلیمانی نظام کے اندر موجود سیاسی جماعتوں کو آئین اور قانون کے ساتھ چلنا ہوگا تاکہ ملک میں سیاسی استحکام آسکے اور پارلیمانی کے اندر ہی آئینی مسائل کا حل نکالاجاسکے جوسب کے مفادمیں ہے اور ملک وعوام کی ترقی کا ضامن بھی ثابت ہوگا۔