باہم معذور یا اسپیشل پرسن ایسے افراد کو کہا جاتا ہے جو کسی ایسی بیماری یا ذہنی طور پر مفلوج محرومی میں مبتلا ہو جو انسان کے روزمرہ کے معمولات زندگی سرانجام دینے کی اہلیت پرگہرے اثرات مرتب کرے یا ایسے فرد کے کام کرنے کی اہلیت یا صلاحیت کو ختم کردے۔ باہم معذوری ذہنی جسمانی اور پیدائشی بھی ہو سکتی ہے اور حادثاتی بھی۔ عالمی ادارہ برائے صحت WHO کے مطابق ترقی پذیر ممالک بشمول پاکستان میں معذور افراد کی تعداد 10 سے 15 فیصد تک بڑھ چکی ہے۔
2011 میں حکومت پاکستان اقوام متحدہ کے تحت کنوینشن برائے حقوق معذوران (Convention on the rights of Person disabilities)کی توثیق کرچکاہے۔اقوام متحدہ کے مطابق دنیا بھر میں باہم معذور افراد کی کل تعداد تقریباً 65 کروڑ سے زائد ہے۔جبکہ پاکستان میں تقریباً ایک کروڑ 80 لاکھ سے زائد افراد مختلف اقسام کی معذوری کی زندگی گزار رہے ہیں، جن میں 90 لاکھ خواتین مختلف معذوریوں کا شکار ہیں جبکہ پاکستان میں موجود 60 فیصد معذور افراد کا تعلق نوجوان طبقہ سے ہے جن کی عمریں 29 سال سے کم ہیں جو کہ ذہنی و جسمانی معذوری کے باعث مختلف نوعیت کے مسائل سے دو چار ہیں، بلوچستان میں معذورں پر کام کرنے والے ایک غیر سرکاری ادارے “ہوسٹ” کے مطابق بلوچستان میں معذور افراد کی بہتری کے لیے جو بل 2017 میں منظور کیا گیا تھا؛ ’’ اس بل پر ابھی تک عمل درآمد نہیں ہو رہا ہے۔
(مذکورہ بل میں باہم معذور افراد کے روزگار کا جو کوٹہ پہلے 3 فیصد تھا اب اسے 5 فیصد کر دیا گیا یے)‘‘۔ لیکن اس کے باوجود معذوروں کے اس کوٹے پر اب تک مکمل طور پر عمل درآمد نہیں کیا جا رہا ہے .بلوچستان میں ایسی بہت سی معذور خواتین ہیں جو کام کرنے کے قابل ہی نہیں یا کام کرنے کی استعداد ہی نہیں رکھتیں۔ ان کے لئے بلوچستان حکومت ماہوار وظیفہ مقرر کرے تاکہ وہ باعزت طور پر زندگی گزار سکیں‘‘ بلوچستان کے محکمہ سوشل ویلفی?ر نے بھی معذور افراد کی نئے سرے سے رجسٹریشن شروع کی ہے۔ ابھی تک پورے صوبے میں اٹھارہ ہزار سے زائد باہم معذور افراد کی رجسٹریشن کا ڈیٹا موجود ہے، جبکہ اصل میں معذروں کی تعداد تیس سے چالیس ہزار کے قریب ہے۔ صرف نصیرآباد ڈویڑن میں ساڑھے چار ہزار معذور افراد رجسٹرڈ ہیں ، اس سے پتا چلتا ہے کہ بلوچستان بھر میں معذوروں کی سرکاری سطح پر رجسٹرڈ تعداد سے اصل تعداد کہیں زیادہ ہے۔سابق وزیر اعلی بلوچستان جام کمال کے دورحکومت میں ایک مثبت قدم یہ اٹھایا گیا کہ صوبے بھر کے پانچ سو سے زائد معذور افراد کو موٹرسائیکل، پچاس سے زائد معذروں کو الیکٹرک ویل چیئر اور سینکڑوں کی تعداد میں ویل چیئرتقس?م ک? گئے۔
بلوچستان میں معذور افراد کیلئے اس طرح کا اچھا اقدام پہلی مرتبہ کیا گیا جسے عوامی اور سماجی حلقوں میں بہت سراہا گیا۔ بلوچستان سمیت ملک بھر میں انجمن باہمی معذوران کو جن معاشرتی مسائل، مشکلات ، مصا?ب اور تکالیف کا سامنا ہے ان میں سر فہرست بیروزگاری، قانون ساز اداروں میں ان کی عدم نمائندگی، سفری مسائل، مفت علاج معالجے کی عدم دستیابی اور معذور افراد کے لئے وظائف کا نہ ہونا قابل ذکر ہیں۔ اگرچہ سابقہ حکومتوں نے وقتاً فوقتاً ان افراد کی بحالی کے لئے کچھ اقدامات اٹھائے ہیں لیکن باہم معذور افراد کی حالت جوں کی توں ہے۔ معاشرے کی ستم ظریفی اور حکومتی بے حسی اور عدم توجہی کے باعث باہم معذور افراد کسمپرسی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں ، 90 فیصد خصوصی افراد کو روزگار کے مواقع دستیاب ہی نہیں اور وہ اپنی زندگی کی گاڑی کو د ھکیلنے اور اپنی گزر بسر کیلئے دوسروں پر انحصار کرتے ہیں۔ باہم معذور افراد کو ہمارے معاشرے میں بوجھ سمجھا جاتا ہے ، ہمارے معاشرتی رویوں کی وجہ سے جگہ جگہ باہم معذور افراد کو اذیت کا احساس دلانے اور حقیر سمجھنے کے ساتھ ساتھ انہیں نفرت آمیز رویوں کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے اور اسی وجہ سے ان کی اکثریت گھروں تک محدود ہوجاتی ہے۔ معذور افراد میں احساس محرومی کوختم کرنے اور ان کی بحالی کے لیے ہنگامی بنیادوں پر اقدامات کی سخت اور فوری ضرورت ہے تاکہ یہ لوگ معاشرے کا حصہ بن سکیں۔ جسم کے مختلف اعضاء سے معذور ہونے کے باوجود انتہائی پر عزم و پر جوش دکھائی دینے والے باہم معذور افراد کی صلاحیتیں اور ان میں ملک و ملت کی خدمت کے لئے کچھ کرنے کا جذبہ نارمل انسانوں سے کہیں زیادہ دکھائی دیتا ہے۔
اعضاء کی صحت جہاں بہت بڑی نعمت ہے، وہاں عزم و حوصلہ اور قوت ارادی اس سے بھی بڑی نعمت ہے جسے کام میں لا کر جسمانی کمزوریوں پر قابو پایا جا سکتا ہے۔ انسان بہت کمزور بھی ہے اور بہت طاقت ور بھی۔ اگر اسکے عزم وحوصلہ کا رخ کمزوری کی طرف ہے تو اس سے زیادہ کمزور کوئی نہیں، اور اگر اس کی قوت ارادی عزم و ہمت کی طرف متوجہ ہے تو اس سے زیادہ طاقت ور بھی کوئی نہیں ہے۔ معذور افراد نظروں ہی نظروں میں ہم سے تقاضہ کرتے نظر آتے ہیں کہ خدارا ان پر ترس کھاکر نظر انداز نہ کیاجائے ، ان کو مایوس نہ کیا جائے، ان کی معذوری کے سبب دوسرے انسانوں سے کمتر نہ سمجھا جائے بلکہ ان کو معاشرے کی زنجیر کا حصہ بننے میں مثبت کردار ادا کیا جائے یہی ان کے ساتھ بہترین خیر خواہی ہے۔ خصوصی افراد نے دنیا کے ہر شعبے میں اپنا لوہا منوایا ہے، انہوں نے اپنی محنت اور لگن سے معذوری کو شکست دیکر معاشرے میں اپنا مقام بنایا ہے، اور اپنی صلاحیتوں کے بل بوتے پر یہ ثابت کر دیاہے کہ اگر ان کی حوصلہ افزائی کے ساتھ ساتھ ان کے ساتھ مالی تعاون بھی کیا جائے تو یہ عام لوگوں کی طرح اپنی بہتر انداز میں زندگی گزار سکتے ہیں۔پاکستان میں معذور افراد کی فلاح و بہبود سے متعلق صرف ایک ڈس ایبل پرسنز ایمپلائنمنٹ اینڈ ری ہیبلی ٹیشن آرڈیننس 1981ء موجود ہے جس میں معذور افراد کے لیے نوکریوں میں دو فیصد کوٹہ متعین ہے۔ اسکے علاوہ علاج کی مفت سہولت اور باہم معذور افراد کے بچوں کی سرکاری اداروں میں 75 فیصد جبکہ پرائیویٹ اداروں میں 50 فیصد فیس معافی اور روزگار کی یقینی فراہمی بھی اس قانون کا حصہ ہے۔ مگر اس کے باوجود اکثر معذور افراد کو اپنے حقوق کے حصول کے لیے سڑکوں پر احتجاج کا راستہ اختیار کرنا پڑتا ہے اور پولیس کے ڈنڈے بھی کھانے پڑتے ہیں۔
مذکورہ بالا آرڈیننس میں خاصی خامیاں، کمزوریاں بلاشبہ موجود ہیں جنہیں رفع کرنے کی اشدضرورت ہے۔ معذورافراد کی بحالی ملک کی خوشحالی ہے اور ان کے مسائل کا حل وقت کا تقاضا ہے ، اس کے لئے حکومت کے ساتھ ساتھ معاشرے کو بھی اپناکردار بخوبی ادا کرنا ہوگا۔ باہم معذور افراد کی آنکھوں کی چمک اور امید ہم سے تقاضہ کرتے ہیں کہ خدارا انہیں نظر انداز مت کیا جائے ، ان پر ترس کھانے کے بجائے انہیں ان کے حقوق دیئے جائیں۔ فلاح انسانیت کیلئے مذہب اسلام نے بھی باہم معذور افراد کی عزت و تکریم اور ان کا خیال رکھنے کاخصوصی طور پر حکم دیا ہے۔
اللہ تعالیٰ نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کے ذریعے امت کو یہ تعلیم دی کہ باہم معذور افراد دیگر معاشرے کے طبقات کی نسبت زیادہ توجہ کے مستحق ہیں، دوسرے افراد کو ان پر ترجیح دیتے ہوئے انہیں نظر انداز نہ کیا جائے بلکہ دوسرے افراد پر انہیں ترجیح دی جائے۔ اسلام جہاں باہم معذوروں کو عزت و احترام دینے اورخیال رکھنے کا حکم دیتا ہے وہاں پر یہ بھی کہتا ہے کہ ان پر کوئی ایسی ذمہ داری نہ ڈالی جائے جو ان کے لئے ناقابل برداشت ہو۔ترقی یافتہ ممالک میں باہم معذور افراد قابل رسائی ٹیکنالوجی اور مددگار جدید آلات کی بدولت آفس ورک باآسانی کرلیتے ہیں۔ ہمارے ملک میں بھی کاروباری اداروں بشمول فیکٹری مالکان شاپنگ سینٹرز و بزنس سینٹرز مالکان و انتظامیہ کو اس ضمن میں خصوصی اقدامات کرنے کے ساتھ ساتھ ایسے افراد کو خصوصی طور پر تربیت دینے کی ضرورت ہے تاکہ باہم معذور افراد کو ان کی معذوری کے مطابق اداروں میں ملازمتوں کے مواقع میسر آسکیں۔
ضرورت اس امرکی ہے کہ ہم رنگ و نسل اور ذات پات سے بالاتر ہو کر یہ عہد کریں کہ خصوصی افراد کی بحالی ،ان کو معاشرے کا کارآمد حصہ بنانے میں، ان کو روزگار کی فراہمی کو یقینی بنانے میں اپنا بھر پور کردار ادا کرتے رہیں گے۔