|

وقتِ اشاعت :   May 17 – 2022

سی ٹی ڈی نے ہوشاپ سے زیر حراست نورجان کو سنگین نوعیت کے الزامات لگاکر انسداد دہشت گردی عدالت تربت میں پیش کردیا، خاتون کا تمام الزامات سے انکار، وکلا کی ٹیم نے خاتون کو باعزت بری یا ضمانت کےلیے درخواست دائر کردی۔
ہوشاپ سے لاپتہ کیے گئے خاتون نورجان کو سی ٹی ڈی تربت نے منگل کے روز ایک اور شخص کے ہمراہ جس کا نام ایف آئی آر میں فضل ولد علی محمد درج کیا گیا ہے انسداد دہشت گردی کی خصوصی عدالت کے سامنے پیش کرتے ہوئے الزام عائد کیا کہ خاتون سے خودکش جیکٹ بمعہ 8.7 کلو بارودی مواد، تخریبی سرگرمیوں کے لیے دیگر آلات سمیت ہوشاپ میں خواتین اہلکاروں کے ہمراہ قابو پاکر گرفتار کرلیا گیا۔
سی ٹی ڈی نے الزام لگایا کہ خاتون کو خودکش جیکٹ پہنتے ہوئے قابو کیا گیا جس کا مقصد سی پیک پر گزرنے والی ایک غیر ملکی قافلے پر خود کش حملہ کرنا تھا، سی ٹی ڈی نے یہ الزام بھی لگایا کہ خاتون تعلق بی ایل اے کی مجید بریگیڈ سے ہے اس کے ساتھ فضل نامی شخص کو بھی عدالت میں پیش کرکے کہا گیا یہ خاتون کے ساتھ اسلحہ سمیت گرفتار کیا گیا ہے۔
ایک سنیئر وکیل نے مقامی میڈیا کو بتایا کہ عدالت نے خاتون کو دو دنون کے اندر رپورٹ مرتب کرکے دوبارہ عدالت میں پیش کرنے کی ہدایت دیتے ہوئے حکم دیا کہ انہیں سی ٹی ڈی تھانہ میں رکھا جائے اور اسے قریبی رشتہ داروں سے ملنے کی اجازت بھی دی جائے۔
سنیئر وکیل کے مطابق خاتون نے خود پر تشدد کی تصدیق کی تاہم اس نے کسی طرح کی زیادتی سے انکار کیا، خاتون کی طرف سے ناظم الدین ایڈوکیٹ اور جاڈین دشتی ایڈوکیٹ پر مشتمل وکلا کی ایک پینل عدالت میں پیش ہوئی جنہوں نے سی ٹی ڈی کے تمام الزامات مسترد کرتے ہوئے خاتون کو فوری بری یا ضمانت پر رہا کرنے کی درخواست پیش کی۔ وکلا کے پینل میں سنیئر وکیل ناظم الدین ایڈوکیٹ، محراب خان گچکی ایڈوکیٹ، عبدالطیف ایڈوکیٹ،جاڈین دشتی ایڈوکیٹ، عبدالمجید دشتی ایڈوکیٹ، وسیم نسیم ایڈوکیٹ، نیاز محمد ایڈوکیٹ اور شکیل زامرانی ایڈوکیٹ سمیت دیگر سنیئر وکلا شامل تھے۔
اس سے قبل نے سی ٹی ڈی تربت کے ایک مقامی زمہ دار سے بزریعہ فون رابطہ کرکے ان سے معلومات لینے کی کوشش کی تاہم اہلکار نے سی ٹی ڈی کے زریعے کسی خاتون کی گرفتاری سے لاعلمی ظاہر کی اور بتایا کہ نورجان نامی کوئی خاتون ان کی تحویل میں نہیں تاہم اہلکار نے بتایا کہ وہ اس بارے میں معلومات لے کر میڈیا کو بتائیں گے مگر بعد میں رابطہ کرنے پر ان کا نمبر بند رہا