|

وقتِ اشاعت :   May 19 – 2022

وزیراعظم میاں شہباز شریف نے حکومت کی بھاگ ڈور تو سنبھال لی ہے مگر چیلنجز اور بحرانات ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہے ۔

یقینا ساڑھے تین سال سے زائد عرصے کے بحرانات اور ناقص معاشی پالیسیوں کو چند دنوں میں بہتر نہیں کیا جاسکتا مگر ساتھ ہی آئی ایم ایف کے ساتھ جڑے شرائط اور پیکجز کا مسئلہ اپنی جگہ برقرار ہے ۔آئی ایم ایف اپنی شرائط کے بغیر کسی طرح کا پیکج دینے کے لیے تیار نہیں ہوگا اور یہ کڑوا گھونٹ موجودہ حکومت لینے کی پوزیشن میں نہیںہے کیونکہ آئی ایم ایف کے ساتھ ہونے والی ڈیل کے بعد مہنگائی لازماً بڑھے گی پیٹرولیم مصنوعات، بجلی سمیت دیگر چیزوں کی قیمت بڑھانی پڑے گی اور عوام کے اندر یہ تاثر جائے گا کہ موجودہ حکومت کے پاس بھی کوئی خاص حکمت عملی معاشی چیلنجز کو روکنے کے لیے نہیں ہے۔

بہرحال گزشتہ دنوں لندن میں ہونے والے اجلاس کے دوران یہ خبرسامنے آئی کہ میاں محمد نواز شریف نے واضح طور پر بتایا ہے کہ سابق وزیراعظم عمران خان کی غلط پالیسیوں کا خمیازہ ہم نہیں بھگت سکتے اس لیے جتنی جلد ہوسکے، اسمبلیاں تحلیل کرتے ہوئے عام انتخابات کی تیاری کی جائے اور اپنی کارکردگی کی بنیاد پر دوبارہ سرخروہوسکیں موجودہ حالات میں حکومت کرنے سے ن لیگ کی سیاسی ساکھ شدید متاثر ہوگی ۔مگر اب تک کوئی فیصلہ وزیراعظم شہباز شریف کی جانب سے اس حوالے سے نہیں کیا گیا ہے اور نہ ہی اتحادی جماعتوں کے سربراہی اجلاس میں اس نکتہ کو اٹھایا گیا ہے کہ اسمبلیاں تحلیل کردی جائیں۔

شنید میں یہ بھی آرہا ہے کہ وزیراعظم شہباز شریف کی پوری کوشش یہ ہے کہ دیگر صوبوں کے ساتھ ملکر معاشی مسائل سے نمٹا جاسکے اور وہ اس میں وفاقی حکومت کی بھرپور مدد کریں خاص کر سندھ میں پیپلزپارٹی کی حکومت ہے تو زیادہ توقعات اور امیدیں وابستہ ہیں کہ سندھ اس حوالے سے اپنا کردار ادا کرے گی مگر دوسری جانب سیاسی عدم استحکام بھی بڑھتا جارہا ہے ،بلوچستان عوامی پارٹی کے اندر پھوٹ پڑچکی ہے وزیراعلیٰ بلوچستان میرعبدالقدوس بزنجو کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک ان کی اپنی جماعت کے رہنماء جام کمال خان، میرظہور بلیدی نے سردار یار محمد رند کے ساتھ ملکر جمع کرائی ہے اور یہ دعویٰ بھی کیا جارہا ہے

کہ مطلوبہ اکثریت ان کے ساتھ ہے یعنی ایک بار پھر بلوچستان میں حکومت کی تبدیلی متوقع ہے یعنی ساڑھے تین سال کے دوران تیسرے وزیراعلیٰ کی تبدیلی سامنے آرہی ہے تو کس طرح سے سیاسی استحکام برقرار رہ سکتا ہے ۔اس وقت ملک میں جہاں معاشی چیلنجز موجود ہیں وہیں سیاسی بحرانات بھی سراٹھارہے ہیں پنجاب میں بھی صورتحال بہتر نہیں ہے اس طرح سے گورننس کا مسئلہ اپنی جگہ برقرار رہے گا اب وزیراعظم شہباز شریف کس طرح کی حکمت عملی اپناتے ہوئے موجودہ بحرانات اور چیلنجز سے نمٹ کر نکلیں گے یہ کہنا قبل ازوقت ہوگا کیونکہ تمام تر صورتحال واضح ہے جو حکومت کے حق میں بہت کم ہے ۔

اگر حکومت موجودہ گھمبیرصورتحال سے نکلنے میں کامیاب ہوئی تو یقینا یہ ایک بڑی کامیابی ہوگی اب دیکھنا یہ ہے کہ نواز شریف کا مشورہ مانا جائے گا یا پھر حکومت اپنی مدت پوری کرنے کی طرف جائے گی ۔ دوسری جانب پی ٹی آئی کے جلسے بھی عروج پر ہیں اور وہ اس وقت عوام کے درمیان ہیں جو کچھ انہوں نے اپنی حکومت کے دور میں کیا اب سارا ملبہ موجودہ حکومت کے سر پر آکر گررہا ہے عمران خان اور ان کی ٹیم بدترین معاشی مسائل کا ذمہ دار بھی موجودہ حکومت کو ٹھہرا رہی ہے دونوں طرف سے پی ٹی آئی کھیل رہی ہے حکومت کے فیصلوں پر سب کی نظریں ہیں کہ وہ کیا کمال کردکھائے گی جس سے مسائل کم ہوں اور وہ سرخرو ہوسکے۔