17 مئی 2022 کو سپریم کورٹ نے بالآخر ڈیڑھ ماہ بعد آرٹیکل 186 کے تحت صدر کی جانب سے بھیجے گئے ریفرنس پر اپنے رائے کا اظہار کردیا۔ گو کہ کئی سیاسی رہنما اسے عدالتی فیصلہ کہہ رہے ہیں تو انکی درستگی کرنا چاہتا ہوں کہ یہ صرف صدر مملکت کو بھیجی گئی رائے ہے کوئی فیصلہ نہیں، جس پر فوری عمل کیا جائے یا ماضی قریب میں ہونے والے اسمبلیوں کی رائے شماری پر اثر انداز ہو۔
سپریم کورٹ چیف جسٹس اور ایک سینئر جج کی رائے کے مطابق انحراف جمہوریت، سیاسی جماعتوں اور حکومت کیلیے عدم استحکام کا سبب بنتا ہے لہذا ان کی رائے کے مطابق ایسے میں پارٹی سے منحرف رکن کا ووٹ شمار نہیں کیا جاسکتا،جبکہ نااہلی کی مدت کا تعین اس میں نہیں، جس پر پارلیمان کو قانون سازی کرکے مدت وضع کرنی چاہیے۔جبکہ جسٹس مندوخیل اور جسٹس مظہرعالم نے اختلاف کرتے ہوئے رائے دی کہ آرٹیکل 63اے کا اپنا ایک کوڈ ہے جس کے تحت اگر کوئی رکن پارٹی پالیسی کی خلاف ورزی کرتا ہے تو پارٹی سربراہ اپنے اختیار کے تحت کارروائی کا بیان کردہ طریقہ استعمال کرکے الیکشن کمیشن میں منحرف رکن کو ڈی سیٹ کرنے کی درخواست دے سکتا ہے۔
جس کے بعد الیکشن کمیشن آرٹیکل 63 اے کے تحت انحراف ثابت ہونے پر رکن کو محض ڈی سیٹ کا فیصلہ کرسکتا ہے۔ اور متاثرہ فریق اس کے خلاف عدلیہ سے رابطہ کرسکتا ہے جس کا فیصلہ عدلیہ کو 30 دن کے اندر کرنا ہوگا۔ چونکہ عدالت نے صرف رائے دی ہے کوئی فیصلہ نہیں تو پارلیمان اور سیاسی پارٹیاں اس پر فی الوقت عمل کرنے کے پابند نہیں۔ قومی اسمبلی میں تو کسی رکن کا انحراف ثابت نہ ہوسکا ، پنجاب کے حوالے سے الیکشن کمیشن کا فیصلہ آنا ابھی باقی ہے۔
منحرف ارکان نے مؤقف اپنایا کہ ہمیں پارٹی سے کوئی واضح ہدایات نہیں تھیں تو ہم پر انحراف کی کارروائی نہیں ہوسکتی۔ لیکن اگر فیصلہ ان کے خلاف بھی آجاتا ہے تو ڈی سیٹ ہونے کے باوجود حمزہ شہباز کو کم از کم دو ووٹوں کی برتری حاصل ہوگی۔ پنجاب میں اس وقت کوئی گورنر نہیں جبکہ قائم مقام گورنر کا چارج بھی اسپیکر پنجاب اسمبلی نے نہیں سنبھالا ہے۔ گورنر پنجاب کی سمری اس وقت ایوان صدر میں موجود ہے۔
اگر چہ پرویز الہٰی قائم مقام گورنر کا سیٹ سنبھال کر اعتماد کا ووٹ لینے کا کہتے ہیں اور حمزہ ناکام ہوجاتے ہیں تو نئے وزیراعلیٰ کیلیے وہ دوبارہ امیدوار بن سکتے ہیں۔اگر ووٹنگ کے پہلے راؤنڈ میں وہ مقررہ ووٹ حاصل نہیں کرتے مگر مخالف امیدوار سے زیادہ ووٹ حاصل کرتے ہیں تو دوسرے راؤنڈ میں ایک بھی ووٹ کی اکثریت سے وہ ایک بار پھروزیراعلیٰ پنجاب بن سکتے ہیں۔ لیکن جہاں تک سپریم کورٹ کی رائے کی بات ہے تو ان کو وزیراعلیٰ کی کرسی سے ہٹایا نہیں جاسکتا کیونکہ مخالف امیدوار نے محض ایک ہی ووٹ حاصل کیا تھا۔