|

وقتِ اشاعت :   May 21 – 2022

ملک میں قانون اور آئین کی بالادستی سے ہی انصاف کا بول بالا ہوسکتا ہے ، سیاسی جماعتوں کی حکومت میںا ٓنے کا مقصد عوام کی خدمت اور آئین کے تحت اپنی ذمہ داریاں نبھانا ہے عوام اپنے نمائندگان کو ووٹ اس لیے دے کر انہیں ایوان میں بھیجتے ہیں کہ ان کے مفادات کا تحفظ کیاجاسکے ذاتی وگروہی مفادات کی تکمیل کے لیے عوام سیاسی جماعتوں کو ووٹ نہیں دیتے ۔

المیہ یہ رہا ہے کہ ہمارے یہاں طرزحکمرانی اچھی نہیں رہی ہے زیادہ تر توجہ اپنے مفادات اور منظور نظرافراد کو نوازتے ہوئے گزارا گیا ہے جس کی وجہ سے قانون کمزور کے لیے سخت اور طاقتور کے لیے نرم رہا ہے اس طرح سے ملک کی ترقی امن استحکام سب خطرے میں پڑجاتے ہیں ۔موجودہ بحرانات کا تسلسل بھی اسی وجہ سے ہے جہاں بڑی بڑی شخصیات کو کرپشن بے ضابطگیوں پر سزا نہیں ملی، ٹھوس شواہد ہونے کے باوجود ان کی سرپرستی کرتے ہوئے انہیں ریلیف فراہم کیا گیا گوکہ بعض سیاسی قائدین پر جھوٹے کیسز بنائے گئے ،انہیں سلاخوں کے پیچھے دھکیلا گیا سیاسی انتقامی کارروائیوں کا نشانہ بنایاگیا جو کہ سراسر زیادتی اور قانون کی خلاف کھلی ورزی ہے، اب اس روش کو ختم ہوجانا چاہئے۔

پارلیمان میں بیٹھے نمائندگان قانون اور آئین کے دائرے میں رہ کر اپناکام کریں اداروں کے اندر مداخلت منظور نظرافراد کی تعیناتیوں سے گریز کریں کیونکہ اس سے پورا نظام کمزور پڑجاتا ہے اور جن شخصیات کو اہم عہدوں پر بٹھایاجاتا ہے وہ اگر ریلیف فراہم کرتا ہے تو ادارے کو بھی بہت زیادہ نقصان پہنچاتا ہے جس کی طویل تاریخ پڑی ہے جبکہ جن آفیسران نے اچھی کارکردگی دکھائی اور مخلصانہ انداز میں کام کیا تو ان کے تبادلے کئے گئے ،غیر قانونی عمل کا حصہ نہ بننے والے آفیسران کو ہر وقت دیوار سے لگایاگیا اب یہ موجودہ حکومت کی ذمہ داری بنتی ہے کہ نئی مثال قائم کرتے ہوئے قانون اور آئین کی بالادستی اور گورننس پر کام کرے تاکہ عوام میں ایک اچھا پیغام جائے۔ بہرحال گزشتہ روزسپریم کورٹ نے تحقیقاتی اداروں کی تفتیش میں حکومتی مداخلت سے متعلق ازخود نوٹس کی سماعت کے دوران ہائی پروفائل کیسز،خصوصی عدالت اورنیب کیسز میں تقرری وتبادلوں سے روک دیا۔

حکومتی ارکان کے خلاف تفتیش میں مبینہ حکومتی مداخلت پر ازخود نوٹس کی سماعت چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں 5 رکنی لارجر بینچ کر رہا ہے۔دوران سماعت چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ نیب لاہور اور ایف آئی اے سے کئی افسران کا تبادلہ کیا گیا، ہائی پروفائل کیسز میں تبادلے اور تقرریوں پر تشویش ہے۔چیف جسٹس پاکستان نے اٹارنی جنرل سے استفسار کیا کہ اس طرح کیوں ہو رہا ہے؟ اٹارنی جنرل صاحب، آپ کے آنے کا شکریہ، کیا آپ نے ازخود نوٹس کیس کی پیپر بک پڑھی ہے؟اٹارنی جنرل اشتر اوصاف نے جواب دیا کہ پیپر بک نہیں پڑھی، جس پر انہیں سوموٹو نوٹس کی پیپر بک پڑھنے کے لیے دی گئی۔

چیف جسٹس عمرعطا بندیال نے کہا کہ پیپر بک کا پیراگراف 2 اور3 پڑھ لیں، ایف آئی اے لاہور کی عدالت میں پراسیکیوٹرکو تبدیل کردیا گیا، ڈی جی ایف آئی اے ثناء اللہ عباسی اور ڈائریکٹر رضوان کو بھی تبدیل کر دیا گیا، سوموٹو کا بیک گراؤنڈ آپ نے پڑھ لیا ہے؟چیف جسٹس نے کہا کہ ڈی جی ایف آئی اے نے ایک تفتیشی افسر کو پیش ہونے سے منع کیا، ڈی جی ایف آئی اے نے تفتیشی افسر کو کہا کہ نئے بننے والے وزیراعلیٰ کے کیس میں پیش نہیں ہونا، پراسیکیوشن برانچ اور تفتیش کے عمل میں مداخلت نہیں ہونی چاہیے۔جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ پراسیکیوشن افسران کو ہٹانے کی وجوہات جاننا چاہتے ہیں،

ڈی جی ایف آئی اے سندھ سے ہیں، اچھا کام کر رہے تھے جبکہ کے پی میں بھی ثنااللہ عباسی کی کارکردگی اچھی تھی، ڈی جی ایف آئی اے ثناء اللہ عباسی اچھی شہرت کے حامل افسر ہیں۔چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیے کہ اخبارات میں 2 ماہ سے خبریں دیکھ رہے ہیں، اخباری خبروں کے مطابق ای سی ایل پالیسی بدلنے سے 3000 سے زائد لوگ مستفید ہوں گے، ای سی ایل کی پالیسی میں ردوبدل سے متعلق بھی جاننا چاہتے ہیں، جاننا چاہتے ہیں کس طریقہ کار سے ای سی ایل میں موجود افراد کو فائدہ پہنچایا جا رہا ہے؟ کوئی رائے نہیں دے رہے،

صرف حقائق جاننا چاہتے ہیں، سسٹم کو اندرونی اور بیرونی خطرات لاحق ہیں۔سپریم کورٹ نے ڈی جی ایف آئی اے اور چیئرمین نیب کو نوٹسز جاری کرتے ہوئے تحریری جوابات طلب کر لیے اور کہا کہ نیب اور ایف آئی اے کے پراسیکیوٹرز سمیت تمام متعلقہ افسران تحریری جواب دیں، تمام متعلقہ افسران اپنے اوپر لگائے گئے الزامات پر جواب دیں۔سپریم کورٹ نے کہا کہ بتایا جائے شہباز شریف اور حمزہ شہباز کے کیسز میں تفتیشی افسران کے تقرر و تبادلے کس بنیاد پر کیے گئے؟ ان معاملات میں قانون کی حکمرانی پر اثر پڑ رہا ہے۔چیف جسٹس نے کہا کہ امن اور اعتماد معاشرے میں برقرار رکھنا آئین کے تحت سپریم کورٹ کی ذمہ داری ہے، قانون کی حکمرانی کو برقرار رکھنا ہے۔

سپریم کورٹ نے پراسیکیوشن کو ہائی پروفائل کیسز واپس لینے سے روکتے ہوئے ازخود نوٹس کیس کی سماعت اگلے ہفتے تک ملتوی کر دی۔اس کے علاوہ سپریم کورٹ نے گزشتہ 6 ہفتوں کے دوران ای سی ایل سے نکالے گئے افراد کی فہرست بھی طلب کر لی ہے اور ہر قسم کے تقرر و تبادلے پر بھی پابندی عائد کر دی ہے۔ سپریم کورٹ کی جانب سے تقرری اور تبادلوں پر پابندی اچھی بات ہے جو کیسز چل رہے ہیں انہیں منطقی انجام تک پہنچایاجائے انصاف کے تقاضے پورے کئے جائیں یقیناناانصافی نہیں ہوگی اور یہ ذمہ داری اداروںکے سربراہان کی بھی بنتی ہے کہ شواہد کی روشنی میں کارروائی کریں ، عوام کے اعتماد کو اداروں پر بحال کیاجائے تاکہ عوام کو ایک بہتر اور روشن مستقبل فراہم کیاجاسکے۔