|

وقتِ اشاعت :   May 23 – 2022

اتحادی حکومت نے اپنی آئینی مدت پوری کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔اطلاعات کے مطابق گزشتہ روز ہونے والے اتحادیوں کے اجلاس میں حکومت نے مدت پوری کرنے کے لیے مشکل فیصلے کرنے کا فیصلہ کیا۔ اتحادی حکومت اس حوالے سے تذبذب کا شکار تھی کہ آیا آئینی مدت پوری کی جائے یا پھر قبل از وقت انتخابات کی طرف جایا جائے لیکن گزشتہ روز ہونے والے اجلاس میں اس حوالے سے متفقہ فیصلہ کیا گیا۔

کہ اگست 2023 تک آئینی مدت پوری کی جائے گی۔اتحادی رہنماؤں کے درمیان ہونے والے رابطوں میں فیصلہ کیا گیا کہ پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں سے متعلق مشکل فیصلے کرنے ہیں کیونکہ حکومت پیٹرولیم مصنوعات مہنگے داموں لیکر سستے داموں پر دے رہی ہے۔ پچھلے دنوں آصف زرداری کی اہم شخصیت سے ملاقات ہوئی تھی، اہم شخصیت سے ملاقات کے بعد آصف زرداری نے شہباز شریف اور مولانا فضل الرحمان سے ملاقات کی تھی جن سے مشاورت کے بعد حکومت کی مدت پوری کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔

اتحادی حکومت نے اپنی 13 سے 14 ماہ کی مدت پوری کرنے کا فیصلہ کیا ہے اور یہ فیصلہ بھی کیا گیا ہے کہ حکومت کو اپنی آئینی مدت پوری کرنے کے لیے گورننس کو بہتر کرنا پڑے گا۔ اتحادی حکومت نے فیصلہ کیا ہے کہ قبل ازوقت انتخابات نہیں کرائے جائیں گے اور اپنی مدت پوری کرنے کے لیے حکومت مشکل معاشی فیصلے کرے گی۔ اجلاس میں فیصلہ ہوا کہ عمران خان اسلام آباد میں جلسہ کر کے چلے جائیں گے تو ان کو سہولیات فراہم کی جائیں گی ,اگر عمران خان دھرنا دے کر حکومتی نظام کو مفلوج کریں گے تو انہیں قانونی طریقے سے روکا جائے گا، دھرنے سے اسلام آباد میں نظام زندگی متاثر ہوا تو قانون حرکت میں آئے گا۔ دو دن قبل تک ن لیگ قبل از وقت انتخابات کرانے کے لیے تیار تھی لیکن پیپلز پارٹی کا خیال تھا۔

کہ قبل از وقت انتخابات نہیں ہونے چاہئیں۔ن لیگ کا خیال تھا اگر مشکل فیصلے لیے اور اتحادی چھوڑ گئے تو انتخابات میں بڑا نقصان ہو گا لیکن عمران خان کے لانگ مارچ کے اعلان کے بعد حکومتی اتحاد نے مشاورت کی اور فیصلہ ہوا کہ اگر اس طرح لوگوں کو لا کر حکومت ختم ہوئی تو غلط مثال قائم ہو گی لہٰذا حکومت مشکل فیصلے کرے گی ۔ حکومتی اتحادیوں کے اجلاس میں یہ فیصلہ بھی ہوا کہ آئی ایم ایف کے ساتھ مذاکرات میں حائل رکاوٹوں کو دور کیا جائے گا تاکہ ملکی معیشت کو درست سمت میں لایا جا سکے۔

دوسری جانب وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل بھی آئی ایم ایف سے پالیسی مذاکرات کرنے جارہے ہیں اور دوحہ روانگی سے قبل مفتاح اسماعیل کا کہنا تھا کہ آئی ایم ایف سے کامیاب مذاکرات کے بغیر واپس نہیں آؤں گا، انہیں اس بات پر قائل کروں گا کہ موجودہ حالات میں پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں نہیں بڑھا سکتے۔بلآخر حکومت نے اتحادیوں کی مشاورت سے مل کر مشکل حالات سے نمٹنے کافیصلہ کرلیا گزشتہ چند روز سے ن لیگ خاص کر اس مخصمے کا شکار تھی کہ اگر حکومت کرنے کے دوران سخت فیصلے کئے تو اس کے سیاسی حوالے سے نقصانات کا خمیازہ ن لیگ کو ہی بھگتنا پڑے گا۔

کیونکہ لندن اجلاس میں ن لیگ کے سربراہ میاں شہباز شریف نے انتخابات کی طرف جانے کا مشورہ دیا تھا تاکہ ن لیگ بڑے سیاسی مسائل میں نہ پھنس جائے مگراس مشکل سے نکلنے کے لیے ن لیگ کو حکومتی اتحادیوں کے ساتھ کی ضرورت ہے اوریقینا اجلاس میں اتحادیوں نے ساتھ چلنے کی یقین دہانی کرادی ہے کہ وہ ن لیگ کو تنہا نہیں چھوڑیں گے۔ اس لیے یہ فیصلہ اب کرلیا گیا ہے کہ حکومت اپنی مدت پوری کرے گی اور بعدازاں نگراں سیٹ اپ کی تشکیل کی طرف جایاجائے گا۔

اب آئی ایم ایف کے ساتھ مذاکرات ہی سیاسی مستقبل کا فیصلہ کریں گی جو حکومت کے لیے ایک چیلنج ہے اگر آئی ایم ایف کے ساتھ حکومت کے مذاکرات کامیاب ہوئے اور پیکج مل گیا تو یقینا حکومت مسائل سے نکلنے میں کامیاب ہوگی۔ دوسری جانب پی ٹی آئی دھرنے کے متعلق بھی یہی کہاجارہا ہے کہ ایک ایسے وقت میں پی ٹی آئی نے لانگ مارچ کا اعلان کیا ہے جب آئی ایم ایف کے ساتھ مذاکرات ہونے جارہے ہیں ۔

عالمی مالیاتی ادارے ملک کے سیاسی حالات پر بھی کڑی نگاہ رکھے ہوئے ہیں اگر حالات کشیدہ ہوتے ہیں اور ماحول خرابی کی طرف جاتی ہے تو اس کا خدشہ بھی موجود ہے کہ حکومت آئی ایم ایف کے ساتھ کامیاب مذاکرات نہ کرسکے ۔البتہ اس وقت ملک میں سیاسی اور معاشی بحران دونوں نے ہی سراٹھالیا ہے، ان دونوں چیلنجز سے نکلنے کے بعد ہی فائدہ حکومتی اتحاد کو ملے گا ،اس طرح معاشی چیلنجز پر قابو پانے کے حوالے سے بڑے فیصلے کرنے میں بھی آسانی ہوگی ،اب سارا دارومدار آئی ایم ایف کے ساتھ مذاکرات اور لانگ مارچ کے بعد دھرنے کے نتائج پر منحصر ہے جس پر سب کی نظریں لگی ہوئی ہیں۔