|

وقتِ اشاعت :   May 26 – 2022

گزشتہ روز پی ٹی آئی کی جانب سے ملک کے مختلف علاقوں میں احتجاجی دھرنا دیا گیا جبکہ عمران خان پشاور سے اسلام آباد کی طرف مارچ کرتے ہوئے اسلام آباد پہنچے ، اس تمام تر صورتحال کے دوران ملک کے بیشتر علاقے میدان جنگ بن کامنظر پیش کرنے لگے، گوکہ اتنی بڑی تعداد یا ہجوم نہیں تھا جس کا دعویٰ پی ٹی آئی کررہی تھی کہ لاکھوں کی تعداد میں عوام نکلے گی۔

اور امپورٹڈحکومت کو گھر بھیج کر اسمبلیاں تحلیل کرکے انتخابات کے لیے نئی تاریخ لے گی مگر سب نے دیکھا کہ اسلام آباد کے اندر ہی گزشتہ روز صبح سے ہی مقامی لوگوں کی ہی اتنی تعداد نہیں نکلی تھی بلکہ وہ افراد تھے جن کا تعلق کے پی کے ودیگر علاقوں سے تھا جن میں طالبعلم بھی شامل تھے جو اسلام آباد میں زیر تعلیم ہیں جبکہ ساؤتھ پنجاب جس کے حوالے سے پی ٹی آئی بڑے دعوے کرتی آئی وہاں بھی خاموشی دکھائی دی۔ اگر کہاجائے پنجاب کے نصف علاقوں سے لوگ نہیں نکلے تو غلط نہ ہوگا ۔

پی ٹی آئی کی اپنی قیادت کے پی کے سے مارچ کرکے اسلام آباد کی طرف نکلی تھی اس حوالے سے حکومتی ارکان دعویٰ کررہے ہیں کہ سرکاری وسائل اور مشینری کو استعمال کیا گیا اور لوگوں کو اپنے ساتھ لایا گیا اس لیے کے پی کے کا چناؤ کیا گیا تاکہ افرادی قوت کا مظاہرہ نظر آئے جبکہ کراچی میں لوگ تو نکلے مگر اتنی بڑی تعداد میں نہیں جس طرح باغ جناح کے جلسے میں تھے ،پی ٹی آئی نے جہاں بھی جلسے کئے لوگ تو تھے مگر مارچ میں عوام کی شرکت اس قدر نہیں تھی جس کا جلسوں سے موازنہ کیاجائے۔ ایک ہنگامہ برپا کیا گیا تھا کہ اسلام آباد ڈی چوک پر ہم بیٹھے رہینگے اور الیکشن کی تاریخ لے کر ہی جائینگے جبکہ عمران خان نے کارکنان کو پیغام دیا تھا کہ وہ ڈی چوک پر پہنچ جائیں ۔

عمران خان کی آمد سے قبل اسلام آباد میں کشیدہ صورتحال ضرور رہی مگر صبح سے لے کر شام تک اتنے افراد اکٹھے نہیں ہوسکے جس کا دعویٰ کیا جارہا تھا ،اس تمام سیاسی عمل سے پی ٹی آئی کو دھچکا ضرور لگا ہے ۔ دوسری جانب انہوں نے کہا کہ خوف دلایا جاتا ہے کہ بھیک نہ مانگی اور قرضے نہ ملے تو ملک نہیں چلے گا، قوم کسی صورت امریکی سازش کے تحت امپورٹڈ حکومت کو تسلیم نہیں کرے گی۔چیئرمین تحریک انصاف نے کہا کہ ہم نے اعلان کیا تھا کہ الیکشن کے اعلان تک اسلام آباد میں بیٹھیں گے لیکن گزشتہ 24 گھنٹوں میں دیکھا کہ یہ لوگ ملک کو انتشار کی جانب لے کر جا رہے ہیں۔

یہ لوگ فوج اور پولیس سے ہماری لڑائی کروانا چاہتے ہیں لیکن یہ پولیس بھی ہماری ہے اور عوام بھی ہماری ہے، ہم ملک کو تقسیم کرنے نہیں آئے بلکہ قوم کو بنانے کے لیے آئے ہیں۔انہوں نے کہا کہ حکومت کو 6 روز دے رہا ہوں، اسمبلیاں تحلیل کی جائیں اور جون میں الیکشن کا اعلان کیا جائے ،ورنہ پوری قوم کو ساتھ لے کر دوبارہ اسلام آباد آؤں گا۔عمران خان کی جانب سے اداروں اور عوام کی تقسیم کی بات میں کوئی دم خم نہیں کیونکہ یہ لازمی بات ہے کہ ادارے آئین کے مطابق اپنا کردار ادا کرینگے وہ کسی ایک سیاسی جماعت کی فورسز نہیں ہیں بلکہ ملک اور ریاست کی دفاع کے لیے اپنے فرائض سرانجام دیتی ہیں۔

قانون کی رٹ قائم کرنا ان کی ذمہ داری ہے تو یہ کہنا کہ ہمارے درمیان تقسیم پیدا کرنے کی کوشش کی جارہی تھی کیا ماضی میں عمران خان کی حکومت کے دور میں ہنگامہ آرائی اور قانون کی خلاف ورزی پر فورسز نے کارروائی نہیں کی ؟ البتہ اب پی ٹی آئی دعوؤں تک ہی محدود رہے گی ،اتنے بڑے اعلان کے بعد پیچھے ہٹ جانا اور عوام کی جانب سے کچھ خاص رسپانس نہ ملنا اس بات کو واضح کرتا ہے کہ عوام اپنے مسائل کا حل چاہتی ہے اور اس کا تعلق براہ راست سیاسی استحکام اور معاشی بہتری سے ہے اور یہ امن سے ہی مشروط ہے جنگی حالات سے نہیں ۔