سینکڑوں کی تعداد میں گاڑیوں کی قطاریں لگی ہوں تو سمجھ لینا کہ کوئی ایم پی اے یا ایم این اے گزر رہے ہوں گے۔
کیا آپ کو نہیں معلوم کہ ملکی معیشت کادیوالیہ ہوچکا ہے؟ اگر یہ بات عام آدمی کے علم میں ہے تو یقیناً اسمبلیوں میں بیٹھے ممبران کو بھی ہوگی ۔ ہر سال کروڑوں روپے ایک ایم پی اے کی سیکورٹی پر خرچ کی جاتی ہے۔
ایک ایسے ملک میں جہاں لوگ خط غربت کی لیکر سے نیچے زندگی گزار رہے ہیں ایسے میں یہ عیاشی ہی سمجھی جائے گی۔ کوئی نہیں کہہ سکے گا کہ آج تک سرکاری خزانے سے غریب کے لئے جتنا خرچ ہوا ہے وہ رقم ان عیاشیوں سے بڑھ کر تھا یا اسکے برابر بھی ہے۔
حکومت ایک ریلیف پیکج کا اعلان کرچکی ہے کہ 40 ہزارسے اوپر آمدنی والے افراد کو ماہانہ دس ہزار وظیفہ دیاجائے گا۔
بھئی وہ جو چالیس ہزار ماہانہ کماتا ہے اس کا گزارا تو ممکن ہے لیکن اس کا کیا جو بے روزگار ہے ،یہ وظائف ان کو دیئے جائیں تو کیا ہی خوب ہے۔
فیصلے در فیصلے لیکن مقدر نہیں بدلی شاید ان فیصلوں کو ہی ہماری حکومت مشکل فیصلے کہہ رہی ہے۔ ایسے ملک کا مستقبل کیا ہوگا کہ جہاں تعلیم مہنگا کردیا گیا ہو اور ہتھیار سستے۔
یہ ایک تلخ حقیقت ہے ایک متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والا شخص بھاری اخراجات کی وجہ سے نہ تو کسی سرکاری اور نہ ہی نجی یونیورسٹی سے تعلیم حاصل کرسکتا ہے۔
بلوچستان یونیورسٹی کے طلبا احتجاج پر ہیں کہ ہمیں سستی تعلیم دو۔ سستی نہ صحیح ریزرو سیٹیں بحال کرو لیکن کوئی سننے والا نہیں۔ باقی عیاشیوں کے لئے خزانہ بھرا پڑا ہے لیکن تعلیم کے لیے پیسے نہیں۔