|

وقتِ اشاعت :   June 10 – 2022

یہ ایک خوش آئند بات ہے کہ خواتین اور لڑکیوں کے حفظان صحت کے حوالے سے اہم مسئلے ماہواری پر اب معاشرے میں گفتگو کا سلسلہ عام ہو گیا ہے جس سے ان مسائل سے نمٹنے کی حکمت عملی اختیار کرنے میں مدد ملے گی ماواری کے دوران خواتین چاہے وہ گھر میں ہوں یا ملازمت کر رہی ہوں، آمدادی کیمپوں میں ہوں، سکول میں ہوں یا کہیں اور، انہیں اس عمل سے بہر صورت گزرناپڑتا ہے۔خواتین کی مشکلات میں تب مزید اضافہ ہو جاتا جب ماہواری کے دوران حفظان صحت میں معاون سہولتوں کی عدم موجودگی کے باعث انہیں غیر صحت مند طریقوں کا سہارا لینا پڑتا ہے۔

اس کی وجہ سے ان خواتین میں ممکنہ جلدی امراض کے ساتھ ساتھ کئی سنگین بیما ریوں کے حملے کا خطرہ بھی بڑھ جاتاہے۔یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ تیزی سے بدلتے ہوئے سماجی صنفی اصولوں کے تناظر میں، ماہواری کے مسئلے پر نوعمروں اور نوجوانوں کے درمیان طویل مدتی مکالمے کی ضرورت ہے کیونکہ جب مرد؍ لڑکے اس معاملے کی اساسیت اور تکالیف سیاگاہ ہوں گے، تو ماہواری کے مسئلے سے متعلق مسائل کو بہتر طریقے سے سمجھ سکیں گے اور معاشرے میں خواتین کو ان مسائل کے حل میں رکاوٹ بننے کی بجائے ان کے حل میں معاون ثابت ہوں گے۔یہی وجہ ہے کہ آج ایم ایچ ایم کے حوالے سے صنفی حساسیت پر مبنی آگاہی کو عام کرنے کی کی ضرورت ہے۔

اس موضوع کواسکول میں زندگی کی مہارت کی تعلیم کے ساتھ مربوط کیا جانا انتہائی ضروری ہوچکا ہے تب ہی درپیش مسائل کے حل کی جانب پیش رفت ثابت ہو سکتی ہے۔ اسی طرح اس سلسلے میں طویل مدتی اور پائیدار نتائج کے لیے یہ ضروری ہے کہ حیض کے دوران حفظان صحت کے انتظام سے متعلق ایکشن پلان کو حکومت کی جانب سے ترجیحی بنیادوں پر مناسب انتظامی اقدامات کے ساتھ ساتھ بجٹ مختص کرنے کے حوالے سے پیش رفت کی جائے ۔ایم ایچ ایم کا کامیاب نفاذ تعلیم، صحت، سماجی بہبود، دیہی ترقی اور دیگر بڑے محکموں کے کردار پر بھی منحصر ہے۔اس کے ساتھ ہی میڈیا اور سول سوسائٹی سماجی اصولوں کو متاثر کرنے اور امتیازی سلوک سے لڑنے میں اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔ اسی طرح عام دنوں کے علاوہ ہر لڑکی اور عورت کو آفات کے دوران بھی حیض کے حوالے سے مناسب معلومات اور مدد فراہم کی جانی چاہیے۔ایسا کرنا اس لیے بھی ضروری ہے کہ آفات کے دوران خواتین اور لڑکیاں ہمیشہ سب سے زیادہ متاثر ہونے والوں میں سر فہرست ہوتی ہیں اور ایم ایچ ایم کی پہلے سے ناکافی سہولتیں نا پیدہو جاتی ہیں۔
پاکستان اور خصوصاً صوبہ پاکستان کے 44 فیصد رقبہ کے حامل بلوچستان میں خواتین اور لڑکیوں کو درپیش ان چیلنجز کے حوالے سے شعور کی بیداری کی ایک کاوش کے طور پر ’گلوبل ایم ایچ ڈے 2022کے حوالے سے ایک خصوصی تقریب کا انعقاد کیا گیا۔ اس اہم تقریب
کا اہتما م بلوچستان رورل سپورٹ پروگرام (بی آر ایس پی) نے ایم ایچ ایم ورکنگ گروپ بلوچستان اور جی آئی زی، یونیسف ، مرسی کور، قطر چیرٹی ،تعمیر خلق فاونڈیشن سمیت ورکنگ گروپ میں شامل دوسرے ادارروں کی شتراک سے کیا گیا۔ گلوبل ایم ایچ ڈے ہر سال 28مئی کو منایا جاتا ہے اور اس کا بنیادی مقصد ماہواری کے بارے میں دنیا بھر کی خواتین کو درپیش چیلنجز، متعلقہ پالیسیوں اورمسائل کے ممکنہ حل کے لیے آگاہی کو عام کرنے کے ساتھ ساتھ پالیسیوں میں بہتری اور ہر سطح پر مثبت اقدامات کے لیے آواز اٹھانا ہے۔
ایم ایچ ڈے کی اس خصوصی تقریب میں معروف سماجی کارکن و ریٹائر سینٹر و سابق صوبائی وزیرروشن خورشید بروچہ، ڈائریکٹر جنرل صحت ڈاکٹر نور محمد قاضی، ڈپٹی انسپکٹر جنرل پولیس جواد احمد ڈوگر ، یم ایچ ایم سیکرٹریٹ کوئٹہ کی شریک سربراہ و زلیخا بلیدی، غیر سرکاری ادارے سوسائٹی کے چیف ایگزیگٹیو افیسر عرفان احمد اعوان، جی آئی زی کے نمائندے جعفر شاہ نے موضوع کے مختلف پہلوؤں پر تفصیلی روشنی ڈالی۔ روشن خورشید بروچہ نے اس موقع پر کہا ہے کہ حیض اور اس حوالے سے ہمارے معاشرے میں شعور و آگاہی کا فقدان ہے جس کی وجہ سے خواتین اور لڑکیوں کو کئی طرح کے چیلنجز کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ تمام متعلقہ سرکاری محکموں ، مقامی اور بین الاقوامی غیر سرکاری اداروں اور سول سوسائٹی کی یہ مشترکہ ذمہ داری ہے کہ مل کر نا صرف اس ضمن میں شعور و آگاہی کو عام کیا جائے بلکہ خواتین اور لڑکیوں کے لیے حفظان صحت (ایم ایچ ایم) کو یقینی بنانے والی خدمات اوور سہولتوں تک رسائی کی صورت حال کو بہتر بنایا جائے۔
ڈائریکٹر جنرل صحت ڈاکٹر نور محمد قاضی نے محکمہ کی کاوشوں اور اس ضمن میں مختلف امدادی اورسماجی اداروں کے تعاون کا ذکر کیا۔ انہوں نے اس کہا کہ ہمیں اساتذہ، مذہبی رہنماؤں ، دینی مدارس کی خواتین طلبہ، لیڈی ہیلتھ وزیٹرز سمیت معاشرے کے تمام طبقات کو ایم ایچ ایم کے ضمن میں کاوشوں کا حصہ بنانے کی ضرورت ہے۔ڈپٹی انسپکٹر جنرل پولیس جواد احمد ڈوگر نے کہا کہ ایم ایچ ایم خواتین اور لڑکیوں کی صحت مندانہ زندگی کے لیے نا گزیر ہے۔یہی وجہ ہے کہ آج اس موضوع پر کھل کر بات کرنے کی ضرورت ہے تاکہ ہم اس مسئلے سے جڑے تمام چیلنجز سے مؤثر طریقے سے نمٹ سکیں۔انہوں نے کہا کہ بلوچستان پولیس میں 300 خواتین مختلف شعبوں میں کام کر رہی ہیں ایم ایچ ایم سے متعلق ضروریات پولیس کے خواتین سٹاف کے لیے بھی اتنی ہی اہم ہیں جتنی کہ ملک کی باقی خواتین کو اور اس حقیقت کو پیش نظر رکھتے ہوہئے یہ فیصلہ کیا ہے کہ پولیس کے زیر اہتمام تربیتی عمل میں ایم ایچ ایم کو بطور اہم موضوع شامل کیا جائے گا۔
ایم ایچ ایم سیکرٹریٹ کوئٹہ کی شریک سربراہ زلیخا بلیدی نے کہا کہ دیر پا اثر کے لیے ان کاوشوں کا جاری رہنابے حد ضروری ہے جن کا آغاز ایم ایچ ایم ورکنگ گروپ کوئٹہ نے کیا ہے اور معاشرے میں اس اہم گفتگو کو عام کرنے کے لیے قابل قدر کاوشیوں کا آغاز کر رکھا ہے۔انہوں نے کہا کہ بلوچستان میں ماہواری اور اس سے جڑے چیلنجز کا مقابلہ کرنے کے لیے گزشتہ چند برسوں کے دوران قابل زکر پیش رفت ہوئی ہے تاہم ان کاوشوں کو مزید تقویت دینے کی ضرورت ہے۔ تعلیمی شعبے کے عرفان احمد اعوان نے لڑکیوں کے لیے با سہولت سکولوں کا قیام یقینی بنانے کی ضرورت پر زور دیا۔ انہوں نے کہا کہ گرلز سکولوں میں نا صرف ایم ایچ کے حوالے شعورعام کرنے کی ضرورت ہے بلکہ سکولوں کو لڑکیوں کی ایم ایچ ایم کے ضمن میں سہولتوں سے بھی مزین کرنے کی ضرورت ہے۔
بی آر ایس پی کے چیف ایگزگٹیو آفیسر ڈاکٹر شاہنواز نے کہا کہ یہ امر انتہائی خوش آئند ہے کہ ـخواتین کے اس اہم مسئلے پر بات چیت کی جا رہی ہے تاہم اب ہمیں عملی اقدامات کا دائرہ بڑھانے کی بھی ضرورت ہے۔انہوں نے کہا کہ بی آر ایس پی نے صوبے بھر میں مختلف سکولوں میں طالبات اور اساتذہ کی آگاہی کے لئے تربیتی ورکشاپس کے انعقاد کے علاوہ ان سکولوں کو ’گرلز فرینڈلی‘ بنانے کے لیے درکار انفراسٹرکچر جس میں لڑکیوں کے لیے مخصوص سکول بھی شامل ہیں، کی تعمیر کو یقینی بنایا ہے۔ انہوں نے کہا کہ بی آر ایس پی صوبے بھر کی خواتین کی زندگیوں میں بہتری لانے کے لیے اپنی کاشوں کا سلسلہ ہر سطح پر جاری رکھے گا۔
ایم ایچ ایم الائنسز کی تانیہ خان نے اس موقع پر متعلقہ شعبوں کے تحت مشترکہ حکمت عملی اختیار کرنے کی ضرورت پر زور دیا۔ انہوں نے کہا کہ کوئی بھی ادارہ تنہا اتنی بڑی ذمہ داری نہیں اٹھا سکتا۔ مسئلے کی حساسیت اور ضرورت کو سامنے رکھتے ہوئے ہم سب کو مل کر کام کرنے اور شعور و آگاہی کے سلسلہ کو سرعت کے ساتھ آگے بڑھانے کی ضرورت ہے۔
تقریب کے دوران مختلف مذاہب سے تعلق رکھنے والے رہنماؤں نے مذہبی تعلیمات کی روشنی میں خواتین کی حفظان صحت کی اہمیت بیان کی جبکہ جی آئی زی اور یونیسف کے نمائندوں نے اس حوالے سے اپنے اداروں کے کردار پر روشنی ڈالی۔موضوع کے مختلف پہلوؤں کو تصویری مقابلے اور ٹیبلوز کے ذریعے بھی اجا گر کیا گیا۔ شاہانہ تبسم اور ڈاکٹرنیلوفر نے قبل ازیں ایم ایچ ایم ڈے کی اہمیت سے شرکاء کو آگاہ کرتے ے اس ضمن میں شعور و آگاہی کے لیے کاوشیں تیز کرنے کی ضرورت پر زور دیا۔
قبل ازیںشاہانہ تبسم نے گلوبل ایم ایچ ڈے کی تقریب کا باقاعدہ آغاز کرتے ہوئے شرکاء کی توجہ دلائی کہ کہنے کی حد تک تو ہم یہ مصرع اکثرسنتے ہیں کہ ’وجود زن سے ہے تصویر کائنات میں رنگ‘ لیکن اپنے گرود پیش خواتین کی با اختیاری کے حوالے سے عملی صورت حال کا جائزہ لیں تو معلوم ہوگا کہ شاید کم ہی لوگ یہ سوچتے ہوں گے کہ تصویر کائنات کا یہ حسین رنگ پھیکا۔ مدہم اور کبھی تو سرے سے معدوم یعنی اپنا وجود ہی کیوں کھو تا دکھائی دیتاہے۔مختلف ماہرین نے اس موقع پر زور دیا کہ ہمیں معاشرے کو متوازن، ترقی یافتہ اور خوش حال بنانے کے لیے خواتین کو درپیش اہم مسائل پر توجہ دینی ہو گی۔ اگر ایسا نہ کیا گیا تو ہم تصویر کائنات کو اس کے حقیقی رنگوں سے محروم رکھنے کے لیے قصور وار ٹھہریں گے۔ مقررین نے اس موقع پر اس امر کا بھی اعادہ کیا کہ آج کے دن ہم سب کے یہاں اکٹھے ہونے کا مقصد بھی یہی ہے کہ ہم مل کر ان مسائل خصوصاً خواتین کی صحت اور حفظان صحت کے حوالے سے درپیش ایک بڑے چیلنج سے نمٹنے کے لیے راستہ نکال سکیں۔
تقریب کے دوران شرکاء جن کا تعلق زندگی کے مختلف شعبوں سے تھا کو بتایا گیا کہ ایم ایچ ایم پوری دنیا میں خواتین اور لڑکیوں کو درپیش اہم مسئلہ ہے۔اس پہلو کو اجا گر کرنے کے لیے کہ جنوبی ایشیاء کے ایک اور ملک نیپال میں اس چیلنج کو کس طرح دیکھا جا رہا ہے، تقریب کے شرکاء کو ایک مختصر دستاویزی فلم دکھانے کا اہتمام کیا گیا۔دستاویزی فلم میں واضح کیا گیا کہ معاشی طور پر کمزور طبقات میں خواتین اور لڑکیوں کے لیے نا صرف پر مشقت کام بڑھ جاتے ہیںبلکہ ان کی حفظان صحت کے حوالے سے ضروریات بھی نظر انداز ہو جاتی ہیں۔ فلم میںفرسودہ رسوم و رواج کا بھی ذکر کیا گیا کہ کس طرح ایک فطرتی عمل حیض کو عورتوں کے عیب کے طور پر بیان کیا جاتا ہے۔
بعد ازاں ایک مزاکرے کا اہتمام کیا گیا۔ اس گفتگو میں ایم ایچ ایم کے بارے میں اہم فکری معاملات سامنے آئے۔ اس گفتگو کو آگے بڑھاتے ہوئے ڈاکٹر نیلوفر نے کہا کہ ایک عام تاثر ہے کہ مذاہب شاید خواتین کے ان حقوق کے حوالے سے زیادہ بات نہیں کرتے لیکن جب ہم مختلف مذاہب کے علماء سے بات کرتے ہیں تو صورت حال اس کے بر عکس معلوم ہوتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہی وجہ کہ اس گفتگو میں ہم نے مختلف مذاہب سے تعلق رکھنے والے مذہبی نمائندوں کو دعوت دی ہے کہ وہ مذہبی تعلیمات کی روشنی میں ایم ایچ ایم کی اہمیت کو واضح کریں۔ معروف السلامی سکالرڈاکٹر عطاء الرحمن ، روشن خورشید بروچہ، ڈاکٹر سعدیہ، جسبیر سنگھ اور دوسرے سماجی و مذہبی رہنماؤں نے مختلف مذاہب کی نمائندگی کرتے ہوئے موضوع کے مختلف پہلوؤں پر کھل کر بات کی۔ انہوں نے کہا کہ مذاہب در حقیقت خواتین کی زہنی، جسمانی اور نفسیاتی صحت سے متعلق ان اہم مسائل پر بات چیت اور ان کے حل میں ناصرف یہ کہ رکاوٹ نہیں بلکہ وہ ان امور کی احسن طریقے سے انجام دہی کی سختی سے تلقین کرتے ہیں۔
ایم ایچ ایم اور سینی ٹیشن کا ایک دوسرے کے ساتھ گہرا تعلق ہے۔ اس کی مزید وضاحت کے لیے تقریب کے دوران سینی ٹیشن فار ملین کے نام سے ایک مختصر وڈیو دکھائی گئی۔ وڈیومیں خواتین نے اپنے تاثرات اور تجربات بیان کرتے ہوئے کہا کہ کس طرح سینی ٹیشن کی بہتر سہولتیں ان کی زندگی میں انقلاب لے آئیں اور اب ان کے لیے معمول کے تمام فرائض سر انجام دینا ماہواری کے ایام میں بھی بہت آسان ہو گیا ہے۔تقریب کے دوران شرکاء کو بتایا گیا کہ ایم ایچ ایم کے لیے شعور و آگاہی عام کرنے والے کارکنوں کی کامیابیاں بھی انتہائی حوصلہ افزا ہیں۔ اے پی ایل کی شہناز نے اس موقع پرکہا کہ بلا شبہ آگے بڑھتے ہوئے جب بھی کوئی اہم کامیابی ہمارے قدم چومتی ہے، ہمارے حوصلوں اور ہمت کو اس سے ایک نئی جلا ملتی ہے۔شہناز نے کہا کہ اب کمیونٹیز کے لوگ ان کی باتوں کو زیادہ توجہ اور سنجیدگی سے سنتے ہیں۔یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ ہر خوش حال معاشرے کی تعمیر میں اساتذہ کا کردار کلیدی تصور کیا جاتا ہے کیونکہ اساتذہ کی تربیت ایک فرد نہیں بلکہ نسلیں سنوار دیتی ہے۔تقریب کے شرکاء کو بتایا گیا کہ ایم ایچ ایم کے بارے میں شعور و آگاہی عام کرنے کی کاوشوں کے دوران ہماری خوش نصیبی رہی کہ ہمیں اساتذہ کا بھرپور تعاون و رہنمائی حاصل رہی۔ اس موقع پر مختلف سکولوں کے اساتذہ کو دعوات دی گئی کہ وہ شرکاء کو خود اپنی زبانی بتائیں کہ ان کی لائق تحسین کاوشوں نے کس طرح اس مقصد کو کامیابی سے آگے بڑہایا۔اساتذہ نے اس موقع پر کہا کہ اب لڑکیوں اور ان کے والدین میں شعور بڑھ رہا ہے اور اس کے نتیجے میں ایم ایچ ایم کی مجموعی صورت حال بہتر ہو رہی ہے۔
تقریب کے دوران اینی میشن کی کسی بھی پیغام کو کامیابی سے عام کرنے میں ایک اہم طریقے کے طور پر استعمال کی اہمیت کو اجا گر کیا گیا۔اس بات کی مزید وضاحت کے لیے ایم ایچ ایم سے متعلق ایک وڈیو دکھائی گئی جس میں خاکوں پر مبنی کرداروں نے ایم ایچ ایم کے مختلف پہلوؤں کو اجا کرنے کے لیے کھل کر گفتگو کی ۔اسی طرح شرکاء کو بتایا گیا کہ ایک فرضی کردار کے ذریعے پیغام دوسروں تک پہنچانے کو ہم رول پلے انگ کا نام دیتے ہیں۔سب سے پہلے قطر چیرٹی کے تعاون سے طالبات نے ایک خوبصورت ٹیبلو پیش کیا جس کے دوران بتایا گیا کہ والدین کا ایچ ایم ایم کے حوالے سے لڑکیوں کو درپیش مسائل سے آگاہ ہونا کیوں ضروری ہے۔ بعد ازاں طالبات کے ایک دوسرے گروپ کو دعوت دی گئی کہ وہ رول پلے کے ذریعے ایم ایچ ایم جیسی اہم ضرورت کو اجاگر کریں۔اس کاوش کے لیے مرسی کور کا تعاون حاصل تھا۔انسانی تاریخ میں مصوری ہمیشہ جمالیاتی اظہار کا ایک بہترین ذریعہ تصور کی گئی ہے۔۔آج ہم اس تخلیقی ہنر کو اہم مسائل کو اجا گرنے کے لیے بھی استعمال کرتے ہیں۔ اسی مقصدد کو پیش نظر رکھتے ہوئے یہ معلوم کرنے کے لیے کہ لڑکیاں ایم ایچ ایم سے جڑے مسائل کو کس طرح دیکھتی ہے، اور اس کا تخلیقی انداز سے اظہار کیسے کرتی ہیں، پینٹنگز کے ایک مقابلے کا اہتمام کیا۔بعد ازاں اس مقابلے میں کامیاب ہونے والی طالبات میںانعامات تقسیم کیے گئے اور ڈاکٹر شاہنواز کے علاوہ دوسرے مہمانوں نے طالبات میں انعامات تقسیم کیے۔ ایم ایچ ایم اور خواتین کے حقوق کے لیے کام کے اعتراف خدمت کے طور پر مہمان خصوصی محترمہ روشن خورشید بروچہ، ڈی ائی جی پولیس جواد احمد ڈوگر، اور ڈاکٹر نور محمد قاضی کو عزازی شیلڈز دی گئیں۔
شاہنہ نے کہا کہ جہاں تک صوبہ بلوچستان میں ایم ایچ ایم کے حوالے سے کاوشوں کا تعلق ہے، اس سفر کا با قاعدہ آغاز جنوری 2021 میں ایم ایچ ایم ورکنگ گروپ کی بنیاد رکھتے ہوئے کیا۔ ورکنگ گروپ کو اپنا کام مؤثر انداز سے آگے بڑھانے کے لیے ایک سیکرٹریٹ کی اشد ضرورت تھی۔ یہ وہ موقع تھا جب جی آئی زی نے آگے بڑھ کر ہماری غیر معمولی معاونت کی جس کی بدولت ورکنگ گروپ کے لیے ایم ایچ ایم کے صوبائی سیکرٹریٹ کی بنیاد رکھی گئی۔یقینا صوبے میں ایم ایچ ایم کے بارے میں شعور اور آگاہی عام کرنے کے حوالے سے یہ ایک اہم سنگ میل تھا۔ تقریب میں موجود جی آئی زی کے نمائندے جعفر شاہ نے اس موقع پر انتہائی مدلل انداز سے پاکستان اور بلوچستان میں ایم ایچ ایم کے بارے میں شعور و آگاہی عام کرنے کے لیے اپنے ادارے کی جانب سے کی جانے والی کاوشوں کی تفصیل پیش کی۔انہوں نے تقریب کے تمام مہمانوں کا شکریہ ادا کرتے ہوئے شرکاء کو بتایا کہ جی آئی زی نے بی آر ایس پی کے ساتھ مل کر مختلف سکولوں میں ایم ایچ ایم کے بارے میں آگاہی کے علاوہ سہولتیں بہم پہنچانے کے لیے بھی کام شروع کر رکھا ہے۔انہوں نے کہا گلوبل ایم ایچ۔ڈے کی مناسبت سے بھی ایک دینی مدرسے، گویائی و سماعت سے محروم بچوں کے سکول سمیت مختلف سکولوں میں تربیتی پروگراموں کا انعقاد کیا گیاجن کے انتہائی مثبت اور حوصلہ افزا نتائج سامنے آئے۔تقریب کی ایک اور اہم بات خواتین پولیس سٹاف کی بھرپور شرکت تھی جنہوں نے اس سلسلے میں کی جانے والی کاوشوں کے ساتھ اپنی بھرپور وابستگی کا اظہار کیا۔یقینی طور پر اس کے لیے ڈی آئی جی پولیس، جواد احمد ڈوگر خصوصی مبارکباد کے مستحق ہیں جنہوں نے پولیس کے محکمے کے اندر اس اہم موضوع پر گفتگو کی بھرپور حوصلہ افزائی کی۔