|

وقتِ اشاعت :   June 14 – 2022


بلوچ خواتین نے کراچی میں لاپتہ افراد کی بازیابی کیلئے پرامن احتجاج پر سندھ حکومت کے وحشیانہ اقدام اور لاٹھی چارج کو بلوچ قبائلی روایات کی پامالی قراردیتے ہوئے کہا کہ خواتین اور بچوں کے تقدس کا احترام نہ رکھنے اور انہیں گرفتار کرکے پولیس موبائلوں میں ڈالنے کی شدید الفاظ میں مذمت کی۔ اور کہا کہ سندھ دھرتی پر بلوچ خواتین پر سندھ پولیس کی جانب تشدد کرنے پر بلوچ معاشرے میں سندھی حکمرانوں کے بارے میں کئی سوالات جنم لے رہے ہیں۔
کراچی پریس کلب میں مشترکہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے بلوچ یکجہتی کمیٹی کی آرگنائزر آمنہ بلوچ اور وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کی ڈپٹی سیکریٹری جنرل سمی دین بلوچ نے کہا کہ گزشتہ پیر کے روز سندھ اسمبلی کے سامنے وہ پرامن طریقے احتجاجی مظاہرہ کررہے تھے۔ اور وہ جمہوری طریقے سے اپنے لاپتہ پیاروں کی بازیابی کے لئے احتجاج کررہے تھے۔ لیکن سندھ دھرتی میں بلوچ ماؤں، بہنوں اور نوجوانوں پر تشدد کیا گیا ان کے سرپر بلوچی چادر چھین کر انہیں دہشتگردوں کی طرح پولیس موبائلوں گھیسٹا گیا۔ اور پولیس تھانے میں گالی گلوچ اور دشنام تراشی کی۔ یہ عمل بلوچی روایات کے برخلاف تھا۔
بلوچ یکجہتی کمیٹی کی آرگنائزر آمنہ بلوچ نے خدشات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ سندھ دھرتی پر ہمارے دوپٹہ اور چادر محفوظ نہیں ہے۔ اور ایسا نہ ہوں کہ بلوچستان میں بھی سندھی حکمرانوں کے لئے جگہ تنگ ہوسکے۔ اب یہ سندھی حکومت پر منحصر ہے کہ وہ بلوچ بیٹیوں اور ماؤں پر سندھ پولیس کی تشدد کرنے پر اپنا کیا ردعمل دینگے؟۔ و گرانہ ہم سمجھتے ہیں کہ سندھی حکمران بھی پنجابی ملٹری اسٹیبلشمنٹ کے شانہ بشانہ ہیں۔ آمنہ بلوچ نے سندھی قوم سے امید کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ سندھی قوم سندھ دھرتی میں بے شمار بلوچ نوجوانوں کی بازیابی میں بلوچوں کا ساتھ دیں۔ اور سندھ حکومت پر دباؤں ڈالیں تاکہ سندھ دھرتی سے اٹھائے گئے بلوچ بازیاب ہوسکے۔ آمنہ بلوچ نے سندھ حکومت کو وفاقی سیکیورٹی اداروں کی سرپرستی کرنے پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ سندھ حکومت اپنا قبلہ درست کرلیں۔ آمنہ بلوچ نے کہا کہ آج ان سے سندھ پولیس کے ایک اعلیٰ افسر نے رابطہ کیا ہے اور بتایا کہ وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے کل ہونے والے سندھ اسمبلی کے سامنے بلوچ خاتون اور بچوں پر تشدد کا نوٹس لیا ہے۔ اور بتایا کہ وزیراعلیٰ سندھ نے تشدد اور گرفتاری کے حوالے سے ایک انکوائری کمیٹی بنائی ہے۔ آمنہ بلوچ نے تشدد اور گرفتاری پر بننے والی کمیٹی کو مسترد کرتے سندھ حکومت سے مطالبہ کیا کہ سندھ دھرتی میں بلوچ نوجوانوں لاپتہ کئے جارہے ہیں۔ان پر انکوائری کمیٹی بنائی جائے۔ انہوں نے کہا کہ وزیراعلیٰ سندھ کو سندھ میں لاپتہ ہونے والے بلوچ نوجوانوں کی بازیابی میں اپنا کردار ادا کرنا چاہیئے۔
آمنہ بلوچ نے گزشتہ پیر کے روز سندھ اسمبلی کے سامنے بلوچ مظاہرین پر پولیس کی تشدد کی شدید مذمت کرتے ہوئے کہا کہ پولیس نے کراچی یونیورسٹی کے ’لاپتا‘ بلوچ طلبہ اور ’جبری گمشدگیوں‘ کا شکار ہونے والے دیگر متاثرین کے حق میں سندھ اسمبلی کے مرکزی گیٹ کے قریب مظاہرہ کیا تھا۔ جس پر سندھ پولیس نے شیرخوار معصوم بچوں کے ساتھ ان ماؤں کو حراست میں لیا۔ ان پر لاٹھی چارج کیاگیا۔ انہیں سڑکوں پر لیٹا کر ان پر تشدد کیا گیا۔ جس سے مظاہرین زخمی ہوگئے۔ انہوں نے کہا کہ ان کے 50 افراد کو حراست میں لے لیا۔ انہیں کلفٹن اور دیگر تھانوں میں رکھا گیا۔ نوجوانوں پر تشدد کیا گیا۔ آمنہ بلوچ نے کہا کہ کلفٹن تھانے میں انسپکٹر سجاد نے بلوچ خواتین کو گندی گالیا دیں۔ انہوں نے مطالبہ کیا کہ ایسے راشی افسر کو برطرف کیا جائے۔ آمنہ بلوچ نے بلوچ خواتین کے سونے کی چین، زیورات اور موبائل فونز لوٹنے پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ پولیس نے تشدد کے دوران خواتین اور بچوں کے سونے کی چین، زیورات اور موبائل فونز لوٹ لئے ہیں۔ جو ایک شرمناک واقعہ ہے۔ انہوں سندھ حکومت سے مطالبہ کیا کہ خواتین اور بچوں کے قیمتی اشیا واپس کروائیں۔
وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کی ڈپٹی سیکریٹری جنرل سمی دین بلوچ نے کہا کہ اب بھی سندھ میں ہمارے بے شمار نوجوان اور بزرگ سیکیورٹی اداروں کے قید میں ہیں۔ انہوں نے کہا کہ نوربخش ولد حبیب کو گزشتہ روز کراچی کے علاقے ریئس گوٹھ سے اٹھالیا گیا۔ نوربخش کا تعلق مکران ڈویژن سے ہے۔ اسی طرح کراچی کے علاقے ملیر سے سعید احمد ولد محمد عمر کو خفیہ اداروں کے اہلکاروں نے گھر سے اٹھالیا۔ سیعد احمد کا تعلق ضلع کیچ کے دشت کڈان سے ہے۔
کراچی کے علاقے سنگھور پاڑہ ماری پور کے تین نوجوانوں کو سادہ وردی میں ملبوس اہلکاروں حراست میں لے کے لاپتہ کردیا ہے۔ جن کی شناخت علی ولد بخشی، اصرار ولد انور عمر اور اصغر ولد عیسی (مرحوم) کے نام سے ہوئی۔
اس موقع پر ایچ آر سی پی کے قاضی خضر، انسانی حقوق کے رہنما خرم ، نغمہ اقتدار سمیت دیگر ترقی پسند طلبہ تنظیموں کے رہنما بھی موجود تھے۔