راقم الحروف اپنے گزشتہ کئی کالموں میں بتاچکا ہے کہ واپڈاایکٹ1958-ء کے تحت محکمہ واپڈا کے قیام کے بعد ملک میں ڈیموں کے ذریعے سستی بجلی بنانے کا آغاز ہوااور واپڈا نے کوئلے اور تیل سے چلنے والے تھرمل بجلی گھر بھی لگائے۔اسی طرح 11KV سے لے کر 500KVتک کی ڈسٹری بیوشن اور ہائی ٹینش لائنیں اور گرڈ اسٹیشنز ملک کے گوشے گوشے میں تعمیر کیے گئے جس کے بعد سستی اور مسلسل بجلی کے ذریعے ملک میں صنعتیں لگیں، زراعت، تجارت اور کاروبارمیں بہتری آئی اور گھریلوصارفین کا معیار زندگی بھی بہتر ہوا جس کی وجہ سے ملک میں خوشحالی آئی،نوجوان مردوخواتین کیلئے چھوٹی بڑی صنعتوں،زراعت اوردیگر شعبوں میں روزگار کے ذرائع پیداہوئے اور نچلے درجے کے عوام کی زندگیوں میں روزبروز بہتری آنی شروع ہوئی۔ لیکن ہمارے ملک کی دفاعی اور معاشی ترقی سے بین الاقوامی دنیا ناخوش رہی ہے چونکہ وہ ہمیں فوجی لحاظ سے نقصان پہنچانے کا خطرہ مول نہیں سکتے تھے اس لئے وہ معاشی ترقی کے انجن واپڈا پر حملہ آور ہوئے۔
1990ء کی دہائی کی نیم جمہوری حکومتوں پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ(ن) کی قیادتوں نے آئی ایم ایف ، ورلڈ بینک اور بین الاقوامی مالیاتی اداروں سے قرض لے کر اپنے ہی ملک کے قومی ادارے واپڈا کو تقسیم درتقسیم کیاجبکہ واپڈا اور پاور سیکٹر کی تباہی کو دیکھنے کے باوجود ڈکٹیٹر پرویز مشرف کے 3سال، بعد ازاں ان کی مسلم لیگ(ق) کی حکومت اور اب تک کی تمام حکومتوں بشمول پاکستان تحریک انصاف نے بھی ملک کے مفادمیں پاورسیکٹر سے متعلق کوئی فیصلہ کرنے کے بجائے آئی ایم ایف کی ڈکٹیشن پر قرضے پر قرضہ لے کر پاور سیکٹر کو تباہ کرنے میں اپنا کرداراداکیا۔ ان حکومتوں کے دور میں آئی پی پیز اور آر پی پیز کے معاہدے ہوئے اوران نجی بجلی گھروں کی بجلی استعمال کیے بغیر انہیں60فیصد کیپسٹی چارجز کے تحت کھربوں روپے ادا کیے گئے ہیں اور ان کے ساتھ خفیہ ڈیل کے ذریعے اپنی تجوریاں بھری گئیںجبکہ حکمران طبقے کی دولت، اولاد اور کاروباربیرون ملک منتقل ہوا اورحکمران طبقے کے جو لوگ باہر رہ رہے ہیں وہ بین الاقوامی طاقتوں کے زیر اثرہیں اوران کی کمزوریاں ملک کو مزید کمزورکرنے کیلئے استعمال میں لائی جارہی ہیں۔
جس محکمے کیلئے ہزاروں کارکنوں نے اپنی جانوں کے نذرانے پیش کیے اور ہزاروں کی تعداد میںکارکنان آج بھی معذور بستر مرگ یا انتہائی کسمپرسی کی زندگی گزاررہے ہیں ان کی قربانیوںکے باوجود آج پاورسیکٹر مختلف کمپنیوں میں تقسیم درتقسیم ہوکر اس حالت میں ہے کہ آپ صرف صوبہ بلوچستان میں کیسکو کی بجلی سپلائی پر نظر دوڑائیں تو اس وقت کیسکو کے شہری علاقوں میں 12گھنٹے اور دیہی علاقوں میں 18سے22گھنٹے لوڈ شیڈنگ ہورہی ہے، زراعت تباہی کی دہانے پرپہنچ گئی ہے، کیسکو کو بجلی کے بلوں کی وصولی نہ ہونے کی وجہ سے اس کی کارکردگی روبہ زوال ہے اوراب حالت یہ ہے کہ کیسکو کی لائنوں پرمنظور شدہ کنکشنز کی تعداد تقریباًساڑھے 6لاکھ ہے جبکہ 13لاکھ سے زیادہ غیر قانونی کنکشنز طاقتورلوگ مال مفت دل بے رحم کے مقولے کے مطابق چلارہے ہیںجس کی وجہ سے کیسکو کے قانونی صارفین جو بجلی کا بل دے رہے ہیں وہ بجلی چوری کے حصے کی سزابھی کاٹ رہے ہیں۔
بجلی کے منظور شدہ قانونی کنکشنزکے مطابق صوبہ600میگاواٹ بجلی پر گزارا کرسکتا ہے لیکن غیرقانونی کنکشنز چلنے کی صورت میں کیسکو کو1800 میگا واٹ تک بجلی درکار ہے۔عدالت عالیہ بلوچستان نے سی پی نمبر555/2005 میں صوبے کے تمام ڈپٹی کمشنرز اور ڈی پی اوز کو ہدایت جاری کی ہے کہ وہ کیسکو کی لائنوں پر لگے تمام غیر قانونی کنکشنز منقطع کرنے کیلئے قانونی طور پر کیسکو کی مدد کریں اور چیف سیکریٹری بلوچستان نے بھی عدالت عالیہ کے احکامات کی روشنی میں تمام ڈپٹی کمشنرز اورڈی پی اوز کو ہدایت دی ہے لیکن صوبے میں حکمرانی کرنے والے سیاستدان کسی بھی طرح بجلی منقطع کرنے میں مدد کرنے کے بجائے غیرقانونی بجلی استعمال کرنے والے طاقتوروں کی پشت پناہی کرتے ہیں اور جب کسی بھی علاقے میں بجلی منقطع کی جائے تو انہی منتخب نمائندوں کی سرپرستی میں سڑکیں بند کردی جاتی ہیں اور ڈپٹی کمشنرزاور ڈی پی اوزبھی کیسکو کے ساتھ کھڑے ہونے کے بجائے لاء اینڈآرڈرکی صورتحال کے پیش نظر غیرقانونی بجلی استعمال کرنے والے طاقتوروں کی پشت پناہی کرتے ہوئے کیسکو کے ذمہ داروں کو مورد الزام ٹھہراتے ہیں۔
اس وقت سرکاری، زرعی، تجارتی اورگھریلو صارفین کے ذمے کیسکو کے 454ارب روپے واجب الادا ہیںبجلی بلوں کی عدم ادائیگی کی وجہ سے صوبے میں بجلی کا بحران پیدا ہوگیا ہے۔آج اگر حکومت ،منتخب نمائندے اور کیسکو مل کر بجلی چوری کے کنکشنز منقطع کریں تو پورے صوبے میں لوڈ شیڈنگ ختم ہوسکتی ہے جبکہ موجودہ وفاقی وزیر مملکت پاورڈویژن محمد ہاشم نوتیزئی کا تعلق صوبہ بلوچستان سے ہے ان کی موجودگی میں پورے ملک کی بجلی سے بلوچستان کی بجلی کا کوٹہ بڑھایا جاسکتا ہے۔اسی طرح اگر وفاقی وزیر مملکت صوبے اور کیسکو کے مفاد میں فیصلہ کرتے ہوئے کیسکو میں سیاسی طور پر تعینات ہونے والے جونیئر افسران جو سینئر کی جگہ تعینات ہوکر صرف اپنے سیاسی آقائوں کی خوشنودی کیلئے کام کررہے ہیں۔
ایسے تمام افسران کو سینیارٹی اور میرٹ پر تعینات کرنے کے احکامات جاری کریں تو کیسکو میں نظم وضبط بحال ہوگا اور عہدوں کی لڑائی کے بجائے افسران اور اہلکاران صارفین کی خدمت کیلئے کام کریں گے اور اس طرح سیاسی مداخلت سے پاک کیسکوبجلی چوری کا خاتمہ کرکے قانونی صارفین کی شکایات کا بروقت ازالہ کرسکتا ہے اور صوبے میں بجلی کی بحرانی کیفیت کا خاتمہ کرکے بغیرلوڈشیڈنگ مسلسل بجلی فراہمی کے ذریعے قانونی صارفین کا کیسکو پر اعتماد بحال کیا جاسکتا ہے۔حکومت پاکستان اور چاروں صوبوں کو پاور سیکٹر سے متعلق ملک اور عوام کے مفاد میںبروقت فیصلہ کرنے کی ضرورت ہے اور قومی مفاد کا تقاضاہے کہ پاور سیکٹر کی تمام کمپنیوں کا انضمام کرکے انہیں واپڈ کے ماتحت لایا جائے اور 1994ء سے اب تک پاور سیکٹر سے متعلق نقصانات کی تحقیقات کرکے ملک کو نقصان پہنچانے کے ذمہ داروں کے خلاف کارروائی کرنے سے ملک میں پاور سیکٹر کو مزید تباہی سے بچایا جاسکتا ہے۔