نصیر بلوچ
گزشتہ دنوں دو بلوچ طلباء دودا الہٰی اور گمشاد بلوچ کی بازیابی کے لئے سندھ اسمبلی کے سامنے بلوچ خواتین پرامن احتجاج کررہی تھیں۔ سندھ پولیس نے پرامن احتجاج پر لاٹھی جارچ کی اور خواتین پر وحشیانہ تشدد کیا۔ بلوچستان کی بیٹیوں کو یوں سڑکوں پر گھیسٹنا کوئی نئی بات نہیں لیکن اس بار ظلم کی انتہا تھی ۔ اس واقعے کے بعد بلوچ عوام میں غم و غصے کی لہر دوڑ گئی ہے اب ہر کوئی بول پڑا ہے کہ بس اب اور ظلم نہیں۔ بلوچوں پر زمین تنگ کردی گئی ہے۔ بلوچستان حقیقی سیاسی قیادت سے محروم ہے۔ اگر کسی لیڈر میں تھوڑا بہت احساس ہے تو وہ عوام کی تنقید سے بچنے کے لیے ایک دو بیان داغ دیتا ہے ۔ وگرنہ بلوچستان حکومت کی جانب سے خواتین پر سندھ میں اس وحشیانہ تشدد کی ابھی تک مذمت بھی نہیں کی گئی ہے۔1971ء میں مشرقی پاکستان میںآپریشن کے نام پر ظلم وبربریت کی جوداستان رقم کی گئی آج وہی تاریخ بلوچستان میں بھی دہرائی جارہی ہے۔ احتجاج چاہے جہاں بھی ہو وفاق کا رویہ بلوچوں کے ساتھ ظالمانہ رہا ہے۔ بلوچستان کی تمام سیاسی پارٹیاں اس حوالے سے نہ ہونے کے برابر ہیں۔