لندن: برطانیہ کی 30 سالہ تاریخ میں سب سے بڑی ریلوے ہڑتال سے ملکی پہیہ رک گیا ہے اور لوگ اپنے گھروں تک محصور ہوکر رہ گئے ہیں۔
دسیوں ہزاروں افراد سے وابستہ ریلوے یونین نے منگل کو کام چھوڑدیا ہے جس سے 15000 کلومیٹر سے طویل پٹڑیاں اب ریل گاڑیوں سے خالی ہوچکی ہے۔ ہڑتالیوں نے کام کی بہتر فضا، تنخواہوں میں اضافے اور دیگر مراعات کا مطالبہ کیا ہے۔
واضح رہے کہ برطانیہ میں مہنگائی کی شرح 10 فیصد تک پہنچنے سے غذا اور ایندھن کی قلت ہے جبکہ تنخواہیں اضافے کے باوجود اب بھی 2006 کے درجے پر پہنچی ہوئی ہیں۔
تنخواہوں میں کمی اور غیریقینی ملازمت سے پریشان لگ بھگ 50 ہزار ملازمین اب اس جمعرات اور ہفتے کو بھی ہڑتال کریں گے۔
برطانوی ریل، میری ٹائم اور ٹرانسپورٹ (آرایم ٹی) ورکرز یونین کے سربراہ مِک لنچ نے کہا کہ پینشن، تنخواہوں اور ملازمتوں سے بے دخلی کے تناظر میں ان کے پاس ہڑتال کے علاوہ کوئی اور چارہ نہیں تھا۔ انہوں نے ہڑتال کے مزید طویل دورانئے سے بھی خبردار کیا۔
دوسری جانب برطانوی وزیرِ اعظم بورس جانسن نے کہا ہے کہ ریلوے ملازمین کی تنظیمیں لوگوں کو نقصان پہنچارہی ہیں اور ملک بھر میں کاروبار، نظام زندگی اور عام افراد شدید متاثر ہورہے ہیں۔
تجزیہ کاروں کے مطابق برطانوی سرکاری ملازمتوں میں افرادی قوت کی قلت ایک بحران بن چکی ہے جس کی وجہ سے عام ملازم پر غیرمعمولی دباؤ ہے۔ پھر کووڈ، بریکسٹ کے بعد کی صورتحال اور سپلائی چین متاثر ہونے سے برطانوی معیشت کو شدید نقصان پہنچا ہے۔
برطانیہ سیاحت سے سالانہ ایک ارب پاؤنڈ رقم کماتا ہے اور ریلوے ہڑتال سے اسے بھی شدید نقصان پہنچ سکتا ہے