|

وقتِ اشاعت :   June 26 – 2022

ستر سال سے زائد عرصے کے دوران کچھ بھی نہیں بدلا ،حکمرانوں کی پالیسیاں عوام کے لیے اسی طرح ہی برقرار ہیں۔ ملک گزشتہ کئی دہائیوں سے مشکل وقت سے گزر رہا ہے اور ان تمام تربدترین حالات میں عوام نے ہی قربانی دی ہے صنعت کار سے لیکر سیاستدانوں کے مقابلے میں عوام سب سے زیادہ ٹیکس دے ر ہے ہیں مگر اس کے باوجود بھی عوام سے مزید ٹیکسوں کے ذریعے ان کاخون چوسنے کامعاملہ تھم ہی نہیں رہا ۔ سپرٹیکس جو لگائے گئے ہیں۔

کیا صنعتکار قربانی دے کر عوام کو اسی دام پر چیزیں دینگے اور بوجھ اپنے سر لینگے ،بالکل بھی نہیں بلکہ وہ اسی ٹیکس کی مد میں چیزوں کی قیمتوں کو بڑھائینگے اور عوام کی جیب سے پیسے وصول کرینگے ۔یہ کہنا کہ ہمارے ملک میں عوام ٹیکس نہیں دیتی دیگر ممالک کے عوام سب سے زیادہ ٹیکس دیتے ہیں غلط ہے کیونکہ عوام ہر چیز خریدتی ہے۔

اس پر ٹیکس دیتی ہے اس قدر ٹیکس اور معاشی بوجھ تلے عوام دب چکے ہیں کہ اب ان کا جینا محال ہوگیا ہے ۔نئے سپرٹیکس سے تو ایک نیا مہنگائی کا طوفان سراٹھائے گا۔ صنعتکارمکمل طور پر عوام کی جیب سے رقم وصول کرینگے حکومت کی جانب سے یہ کہناکہ اب صنعتکار قربانی دیں اور ٹیکس دیں ایسا کبھی تاریخ میں نہیں ہوا،صنعتکاروں نے تو بھرپور طریقے سے منافع کمایا اور جب قربانی کا وقت آیا اور معاشی صورتحال ابتر ہوئی تو اپنا بوریا بسترسمیٹ کر دیگر ممالک جاکر سرمایہ کاری شروع کردی ۔

مگر یہ بھی ایک مسئلہ ہے جب یہاں صنعتوں پر بوجھ آئے گا اور قوت خرید کم ہوجائے گی اس سے صنعتوں کے بند ہونے کا خطرہ پیدا ہوجائے گا اس وقت ایک غیر یقینی کی سی کیفیت ہے جس طرح سے فیصلے کئے جارہے ہیں اور جو صورتحال معاشی حوالے سے سامنے آرہی ہے اس سے لوگوں کی مشکلات میں مزید اضافہ ہوگا۔

بہرحال وزیراعظم شہباز شریف کی جانب سے بڑی انڈسٹریز پر سپر ٹیکس لگایا گیا ہے، وزیر اعظم نے معاشی ٹیم کے اجلاس کے بعد گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ عام آدمی کو ٹیکس سے بچانے کے لیے صنعتوں پرٹیکس لگایا گیاہے، سیمنٹ، اسٹیل، شوگرانڈسٹری، آئل اینڈگیس، ایل این جی ٹرمینل، فرٹیلائزر، بینکنگ، ٹیکسٹائل، آٹوموبائل، کیمیکل، بیوریجز اور سگریٹ انڈسٹری پر بھی 10 فیصد سپر ٹیکس لگے گا۔

انہوں نے کہا کہ سالانہ 15کروڑ روپے سے زائد آمدن کمانے والے پرایک فیصد، 20 کروڑ روپے سالانہ سے زائد آمدن والے پر2 فیصد، 25 کروڑ روپے سالانہ سے زائد آمدن والے پر3 فیصد اور 30 کروڑ روپے سالانہ سے زائد آمدن والے پر4 فیصد ٹیکس لگایا جائے گا جو غربت میں کمی کا ٹیکس ہے۔

اب ذرا جائزہ لیاجائے کہ سیمنٹ بنانے والی کمپنی ٹیکس کی مد میں ہی اسے فروخت کرے گی تو عوام کے جیب سے ہی پیسہ جائے گا، اب غریب اپنے گھر کے چھوٹے کام کاج بھی کرنے سے کترائے گا جو ٹیکس کی مد میں اسے ایک بوری سیمنٹ پر رقم دینی ہوگی کیونکہ کمپنی تو نقصان اٹھانے کے لیے کام نہیں کررہی ،وہ تو اپنا منافع لے گی۔

اسٹیل کی صورتحال بھی اسی طرح ہے جو لوگ گھر بنانے کے خواب دیکھ رہے تھے اب وہ اپنی خواہش کو دبادینگے جبکہ رئیل اسٹیٹ کاکاروبار کرنے والوں پر بھی بہت بڑا زور آگیا ہے اب جو تعمیراتی کام چل رہے ہیں ان کے رک جانے کا خطرہ ہے کیونکہ جن افراد نے فلیٹ سمیت مکانات بنانے کے حوالے سے رقم دی ہے اوروہ انڈرکنسٹریکشن ہیں۔

سریا اور سیمنٹ کی قیمتیں بڑھ جانے کی وجہ سے وہ بوجھ اپنے سر نہیں لینگے اور نہ ہی رقم واپس کرینگے بلکہ کام کو روک دینگے اس وقت تک جب تک صورتحال میں بہتری نہیں آئے گی۔کُل ملاکر بات یہ ہوئی کہ جو سُپر ٹیکس لگائے گئے ہیں اس کا براہ راست اثر عام لوگوں پر ہی پڑے گا لہٰذا حکومت عوام کو تسلی دینے کی بجائے پالیسی پر نظرثانی کرے۔