عوام سمجھدار ہیں حکمرانوں کی ہر پالیسی پر لبیک کہتے ہوئے ملکی معاشی بحران پر بخوشی حصہ ڈالتے ہیں اور سارا بوجھ اپنے سر لیتے ہیں تاکہ حکمرانوں کے شاہی اخراجات پر کوئی اثر نہ پڑے ،نہ ہی ان کے اور ان کے قریبی حلقوں کے صنعتوں کے مالکان پر بوجھ آسکے جوملکی ترقی کے لیے کلیدی کردار ادا کررہے ہیں اپنی کمپنیوں کے ذریعے جو منافع مل جاتا ہے اسے قومی خزانہ میں جمع کرکے عوام کی فلاح وبہبود پرخرچ کرنے کے لیے رکھ دیتے ہیں تاکہ عوام جو مشکل حالات میں ان کا ساتھ دیتی ہے اس وقت یہ رقم ان کے لیے آسانیاں پیدا کرسکے۔
یہ طرز حکمرانی دہائیوں سے چلتی آرہی ہے ہر وقت دوستوں اور اپنے حلقے کے قریبی شخصیات کو نوازا گیا ہے جتنا ریلیف اب تک صنعتکاروں سمیت سیاستدانوں نے لیاہے اور قومی خزانے پر بوجھ بن کر جونقصانات دیئے ہیں ان کی نظیر نہیں ملتی، سونے پہ سہاگہ پھر ہمارے یہاں جمہوریت کی مثالیں ایسی دی جاتی ہیں کہ گویا ایک ترقی یافتہ مغربی ملک ہو جہاں پر عوام کا ٹیکس ان کا پیسہ انہی پر لگتا ہو، انہیں زندگی کی ہر سہولت میسر ہو۔ بیروزگاری الاؤنس سے لیکر بنیادی ضروریات تک ان کی دہلیز پر مل رہے ہوں۔
کبھی ان ممالک کے حکمرانوں اور عوام کی زندگی میں فرق کا جائزہ لیاجائے اور ہمارے یہاں پروٹوکول سے لیکر سیاست سے منافع کمانے کا پیمانہ دیکھاجائے تو صاف نظر آئے گا کہ ہمارے یہاں کتنی غلط بیانی سے کام لیاجاتا ہے۔ خدارا اب تو چولیں نہ مارے جائیں زمینی حقائق پر بات کی جائے، ستر سال سے زائد عرصے کے بعد بھی لوگ بجلی اور پانی کے لیے سڑکوں پر نکل رہے ہیں تو ملک کہاں کھڑا ہے قرضوں کی رقم کہاں خرچ ہوئی ہے قومی خزانے سے عوام کو کیا فائدہ پہنچایا گیاہے ،عوام کے جذبات اور احساسات سے نہ کھیلاجائے جو آپ کے اپنے ووٹرز ہیں۔
آپ کو منتخب کرکے ایوان تک پہنچاتے ہیں تاکہ آپ ان کی زندگیوں میں آسانیاں پیدا کرسکیں۔ مگر نہیں اب بھی کتنے اطمینان اور خوشی سے یہ بات کہی جارہی ہے کہ پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میںاضافے کو عوام نے بحران اور چیلنج سمجھ کر قبول کیا جس کا شکریہ ادا کیاجارہا ہے ،عوام کی جو حالت بنی ہوئی ہے وہ سب کے سامنے آئینہ کی طرح صاف ہے گزشتہ دو روز سے کراچی کی شاہراہیں بجلی لوڈشیڈنگ اور پانی کی قلت پر میدان جنگ بنی ہوئی ہیں پھر بھی ہماری چولیں مارنے کا رویہ ختم نہیں ہورہا ہے۔
وفاقی وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل نے گزشتہ روز اسلام آباد میں کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہاکہ حالات اب بھی مشکل لیکن ہم بہتری کی طرف جارہے ہیں، ملک دیوالیہ ہونے کے خطرے سے نکل چکا ہے،پیٹرول اور ڈیزل پر 120 ارب روپے کی سبسڈی ملک کو دیوالیہ کردیتی، قوم پر فخر ہے کہ اس نے سمجھا کہ ملک دیوالیہ پن کی نہج پر تھا اس لیے پیٹرول مہنگا کرنا پڑا، ملک کی ترقی کے لیے سرمایہ داروں کو حصہ ڈالنا ہوگا۔پاکستان کی عوام نے کیا اپنے خطوط بھیجے کہ ہم اس اقدام سے خوش ہیں مزید ہمارا خون چوسا جائے، یہ باتیں کسی طور پر بھی مناسب نہیں ہیں۔
عوام اپنی روزمرہ زندگی میں اس قدر پھنس اور دھنس کر رہ گئے ہیں کہ سر اٹھانے کا موقع نہیں مل رہا ۔ حالیہ کراچی کا احتجاج اس کی ایک واضح جھلک ہے کہ شہری کیا کہہ رہے ہیں، وہ فریاد کررہے ہیں کہ خدارا مہنگائی سمیت بجلی کی لوڈشیڈنگ کرکے ہمیں مارا نہ جائے ہمارے مسائل حل کئے جائیں اب تو احتجاج اس قدر شدت اختیار کرچکے ہیں کہ بعض مقامات پر شہری شاہراہوں سے اٹھنے کے لیے تیار نہیں کہ جب تک ان کے مسائل حل نہیں ہوجاتے ان کا احتجاج جاری رہے گا لہٰذا وقت اورحالات کی نزاکت کو بھانپتے ہوئے ملک کی گھمبیر حالات کے پیش نظر بیانات دئیے اور فیصلے کئے جائیں تاکہ عوام کا سامنا بلاخوف وخطر کیاجاسکے۔