|

وقتِ اشاعت :   July 4 – 2022

ملک میں بجلی کا مسئلہ شدت اختیار کرتا جارہا ہے ملک کے بیشتر علاقوں میں غیر اعلانیہ لوڈشیڈنگ ہورہی ہے جس سے گھریلو اور کمرشل صارفین بری طرح متاثر ہورہے ہیں جس کی بڑی وجہ اس وقت بجلی کی پیداواری صلاحیت کا فقدان ہے جو منصوبے بجلی کے حوالے سے چلنے تھے وہ تعطل کا شکار ہیں اور جو چل رہے ہیں وہاں ایندھن کے مسائل کا سامنا ہے،حکومت کے لیے اب یہ درد سر بن چکا ہے کہ کس طرح سے توانائی کے موجودہ بحران پر قابو پائے۔موجودہ حکومت کے مطابق ان کے دور میں بجلی کی پیداوار کو بڑھانے کے لیے اہم منصوبے بنائے گئے مگر پی ٹی آئی کی حکومت نے منصوبوں کو روک دیا اور یہ جواز پیش کیا کہ ہمارے پاس بہت بجلی پہلے سے موجود ہے۔متعلقہ محکموں کے درمیان اب کس کی کیا بات چیت ہوئی اور کس نے کیا مؤقف پیش کیا، بہرحال اب مسئلہ موجودہ بحران سے نکلنے کا ہے جس کا وعدہ موجودہ حکومت بار با ر کررہی ہے۔

حکو مت نے بجلی بنانے کیلئے مقامی وسائل استعمال کرنے سے متعلق پالیسی بنانے کی اجازت طلب کر لی ہے۔ اجازت وفاقی وزارت توانائی نے مانگی ہے۔وفاقی وزارت توانائی نے وزیراعظم میاں شہباز شریف کی زیر صدارت منعقدہ وفاقی کابینہ کے اجلاس میں تجویز پیش کی کہ بجلی بنانے کیلئے امپورٹڈ ایندھن کے بجائے مقامی وسائل کو استعمال کیا جائے۔

وزیراعظم میاں شہباز شریف کی زیر صدارت منعقدہ وفاقی کابینہ کے اجلاس میں پیش کیا گیا تمام ایجنڈہ بھی منظور کر لیا گیا۔اجلاس میں وفاقی کابینہ کو لوڈ مینجمنٹ پلان پر بریفنگ دی گئی، ایس ای سی پی کے آڈٹ کیلئے آڈیٹرز کی تقرری کی منظوری دی گئی، اقتصادی رابطہ کمیٹی کے 13 جون کے فیصلوں کی توثیق کی گئی۔وفاقی کابینہ کے اجلاس میں کابینہ کی لیجسلیٹو کمیٹی کے 29 جون کے فیصلوں کی توثیق کی گئی اور کابینہ کمیٹی برائے نجکاری کے فیصلوں کی بھی توثیق کردی گئی۔اجلاس میں لالہ موسیٰ اور دیگر شہروں میں گیس کی بچھائی گئی لائنوں کو چلانے کا مطالبہ کیا گیا اور توانائی کے تاخیری منصوبوں کی بابت آگاہی فراہم کی گئی۔پاکستان مسلم لیگ (ن) کے مرکزی صدر میاں شہباز شریف کی زیر صدارت منعقدہ وفاقی کابینہ کے اجلاس کو دوران بریفنگ حکام کی جانب سے بتایا گیا کہ پاکستان کے امپورٹ بل کا 60 فیصد خرچ باہر سے بجلی بنانے کے لیے تیل منگوانے پر ہوتا ہے۔

شرکاء اجلاس کو زیر تکمیل تاخیری منصوبوں پر بریفنگ دیتے ہوئے حکام نے آگاہ کیا کہ پنجاب تھرمل منصوبہ 26 ماہ کی تاخیر کا شکار رہا، تھر انرجی 17، تھل نووا بیس شنگھائی الیکٹرک پاور میں 60 ماہ کا تعطل آیا اور کروٹ 10 ماہ کے تعطل کا شکار ہوا۔موجودہ حکومت جن منصوبوں کی نشاندہی کررہی ہے اب انہیں چلانے کے حوالے سے جنگی بنیادوں پر اقدامات اٹھائے تاکہ یہ مسئلہ مستقل بنیادوں پر حل ہوسکے کیونکہ اس وقت صورتحال انتہائی گھمبیر ہے جب بجلی نہیں ہوگی تو صنعتیں نہیں چلیں گی کاروبار کو وسعت نہیں ملے گا،پیداوارمیں بہت زیادہ کمی آئے گی جس کا تعلق براہ راست ملکی معیشت سے ہے۔ اس وقت ہر طبقہ بری طرح متاثر ہوکر رہ گیا ہے جب حکومت کو تمام تر معاملات کا علم ہے تو اس حوالے سے باقاعدہ ہوم ورک کرکے تیزی لائے تاکہ آنے والے دنوں میں یہ مسئلہ شدت کے ساتھ سر نہ اٹھائے کیونکہ گزشتہ ہفتے ملک بھر میں اس حوالے سے احتجاج دیکھنے کوملا۔ لوگوں نے شدید غم وغصے کا اظہار کیا جبکہ کاروباری طبقہ بھی تجارتی مراکز کے اوقات کار کے حوالے سے پریشان ہے جو کہ واقعی مسائل کا حل نہیں بلکہ بجلی کی پیداوار بڑھانے کے لیے اقدامات کئے جائیں تاکہ کسی کو زحمت کا سامنا نہ کرناپڑے۔