بلوچستان کی شاہراہوں پر خوفناک حادثے عرصہ دراز سے ہوتے آرہے ہیں اب تک ہزاروں کی تعداد میں قیمتی جانیں ضایع ہوچکی ہیں ایک مسئلہ شاہراہوںکا دورویہ نہ ہونا بھی ہے جس پر سیاسی جماعتوں سے لے کر ہر مکتبہ فکر نے آواز بلند کی کہ بلوچستان کے شاہراہوں کو بہتر کرنے کے ساتھ دورویہ کیاجائے تاکہ حادثات رونما نہ ہوں۔ حکومتیں آتی رہیں فنڈز ملتے رہے مگر خرچ کہاں ہوئے اس سوال کا جواب آج تک نہیں ملا۔
البتہ بلوچستان کو اس کے حصے کے فنڈز اور وسائل سے محاصل کے معاملات کو ہر وقت اٹھایا گیا تاکہ بلوچستان کی محرومیوں میں کسی حد تک کمی آسکے ،ایسا ہوا ہی نہیں اب تو یہ سوالات اٹھ رہے ہیں کہ گزشتہ حکومتوں نے اہم مسائل کو ترجیح کیوں نہیں دی اور کیونکر عوامی نوعیت کے منصوبوں اور مسائل کو حل کرنے کے لیے سنجیدگی نہیں دکھائی ۔اس سے واضح ہوجاتا ہے کہ ہر حکومت کی خواہش رہی ہے اپنی جماعت اور اتحادیوں کو خوش رکھتے ہوئے حکومتی مدت پوری کی جائے اور عوام کو مسائل میں گِرا دیاجائے جس کا سارا ملبہ وفاقی حکومت کے سر ڈال دیا جائے ،یہ سراسر زیادتی ہے۔
وفاق اور بلوچستان کے درمیان خلیج اور سیاسی معاملات اپنی جگہ موجود ہےں جو چھوٹے نوعیت کے نہیں ہیں بلکہ قومی سلامتی سے جڑے ہوئے ہیں اور اس کے لیے بہت بڑے فیصلوں کی ضرورت ہے ۔بہرحال یہ ایک الگ بحث ہے کہ کس طرح سے ڈائیلاگ کیاجاسکتا ہے اوراسٹیک ہولڈرز کو اعتماد میں لیتے ہوئے مکمل مینڈیٹ دے کر بلوچستان کے سیاسی مسائل کو حل کیاجائے ۔مگر اب جو موجودہ معاملات ہیں وہ براہ راست عوام سے جڑے ہوئے ہیں۔ گزشتہ دنوں کوئٹہ تا اسلام آباد براستہ ژوب جانے والے کوچ کے ہولناک حادثے میں قیمتی جانیں ضیاع ہوئیں۔ اس حادثے کی وجہ سے یقینا جاں بحق افراد کے گھروں میں کہرام مچ گیا ہے، وہاںسوگ کا عالم ہے ان کے درد کا مداوا چند بیانات اور معاوضہ کی ادائیگی سے نہیں کیاجاسکتا، انسانی جانیں ان اقدامات سے واپس نہیں آسکتیں بلکہ ایسے اقدامات اٹھائے جائیں کہ دوبارہ اس طرح کے سانحات رونما نہ ہوں۔
یہ پہلی بار نہیں ہوا ہے ہر روز کوئٹہ کراچی شاہراہ پر متعدد حادثات رونما ہوتے ہیں جس سے انسانی جانیں ضیاع ہوجاتی ہیں یہ مطالبہ کئی عرصے سے کیاجارہا ہے کہ کوئٹہ کراچی شاہراہ کو دورویہ کیاجائے جو خونی شاہراہ کے نام سے جانا جاتا ہے ۔اس پر اب موجودہ حکومت کام کرے بلوچستان کی شاہراہوں کو بہتر کرنے کے ساتھ دورویہ کیاجائے دیگر صوبوں میں جس طرح سے ٹریفک اور شاہراہوں کا نظام ہے اسی طرزکی پلاننگ کرے، کم ازکم اتنے وسائل توحکومت بلوچستان کے پاس ہیں کہ وہ اپنی شاہراہوں کو بہتر کرتے ہوئے عوام کو یہ سہولت فراہم کرسکتی ہے۔ اس بات پر زور دیاجارہا ہے کہ فنڈز کا مسئلہ نہیں بلکہ سنجیدگی اور پلاننگ کی ضرورت ہے وسائل اور رقم جتنی بھی ملے اگر کوئی ماسٹر پلان موجود نہیں اور عدم دلچسپی ہے تو مسائل حل نہیں ہونگے ۔محدود وسائل میں رہتے ہوئے عوام کو ریلیف فراہم کیاجاسکتا ہے۔
عوام کی توقعات حکومت اور اپنے نمائندگان سے ہوتی ہے اور اس وقت بلوچستان کی سب بڑی جماعتیں ماسوائے ایک دو کے تمام حکومت میں شامل ہیں اگر اب بھی اس مسئلے کو حل نہیں کیا گیا تو یہ المیہ ہے اب ان کی ذمہ داری بنتی ہے کہ انہیں یہ موقع ملا ہے تو وہ عوام کے لیے کچھ کرکے جائیں تاکہ لوگ انہیں اچھے لفظوں میں یاد رکھیں کہ ہمارے نمائندگان نے کسی حد تک ہمارے مسائل کو ایڈریس کرتے ہوئے سہولیات فراہم کیں۔ ا مید ہے کہ صوبائی حکومت اور بلوچستان کے وفاقی نمائندگان اس اہم مسئلے پر اپنا کردار ادا کرینگے تاکہ آئندہ انسانی جانوں کے زیاں کو روکا جاسکے۔