|

وقتِ اشاعت :   July 8 – 2022

اس وقت دنیا کی آبادی تقریباً 7 ارب ہے۔ دنیا میں ہر طرح کے لوگ پائے جاتے ہیں۔ جن میں ہر مزاج کے لوگ ہوتے ہیں۔ اللہ تعالی نے دنیا میں کچھ لوگوں کو کسی خاص مقصد کے لیے بھیجا ہے جو صرف انسانیت کی خدمت کے لیے بھیجے گئے ہیں جن میں میڈم ڈاکٹر روتھ فاؤ، تھامس گرین مورٹن، بل گیٹس، ڈاکٹر ادیب رضوی، محمد رمضان چھیپا، جیسے کئی نام شامل ہیں۔ انصار برنی، اور مولانا عبدالستار ایدھی شامل ہیں اور فہرست بہت طویل ہے۔

عبدالستار ایدھی جیسے بے لوث مسیحا کی فلاحی کاوشیں قابل تحسین ہیں۔ آج عبدالستار ایدھی کا یوم وفات ہے۔ اس موقع پر دنیا بھر میں اس عظیم انسان دوست کو خراج عقیدت پیش کیاجاتاہے۔ اس دن کے موقع پر ان کے فلاعی و رفاعی کاموں اور زندگی پر ایک نظر ڈالتے ہیں۔
دنیا بھر میں پاکستان کی پہچان اور اپنے وطن کے عظیم انسان دوست مولانا عبدالستار ایدھی میمن خاندان کے چشم و چراغ تھے۔ ان کا تعلق گجرات کا کاٹھیاواڑ میں جونا گڑھ کے قریب واقع ایک چھوٹے سے گاؤں سے تھا جس کا نام بانوا تھا۔ مولانا عبدالستار ایدھی 1928 ء کو پیدا ہوئے۔ ان کے والد کا نام حاجی عبدالشکور ایدھی تھا جو پیشے کے لحاظ سے کپڑے کے تاجر تھے اور وہ ایک نیک سیرت انسان تھے۔

متحدہ ہندوستان کے گاؤں بانڈا کی اس وقت آبادی 25 ہزار کے لگ بھگ تھی اور یہاں کے رہائشی 70 فیصد لوگ میمن تھے۔ اس زمانے میں گجراتی زبان میں ست الوجود فرد کو ایدھی کے نام سے پکارا جاتا تھا۔ مولانا کا خاندان ایدھی کہلاتا تھا۔ 1947 ء کے بٹوارے کے بعد یہ خاندان ہجرت کر کے پاکستان آ گیا اور کراچی میں رہائش پذیر ہوا۔ کم عمری ہی میں انہوں نے عملی میدان میں قدم رکھ دیا تھا۔ والدین سے کچھ رقم لے کر انہوں نے کچھ پنسلیں، تو لیئے اور ماچس کی ڈبیوں کے چند پیکٹ خریدے اور انہیں معمولی منافع پر فروخت کرنے نکل پڑے۔ محنت اور جدوجہد نے ان کی کامیابی کی راہ ہموار کی اور پھر وہ خوانچہ فروش ہو گئے۔ بازاروں میں پان فروخت کرتے رہے۔

گھر گھر دودھ پہنچانے کی ذمہ داری بھی نبھاتے رہے اور ضرورت مندوں کی مدد بھی کرتے رہے۔ 19 برس کی عمر میں وہ اپنی بیمار والدہ کی شفقت سے محروم ہو گئے اور اسی المیے اور دکھ نے ان کے دل میں بیمار اور لا چار انسانوں کی خدمت کی شمع روشن کی۔ وہ گھر سے ملنے والے دوپیسوں میں سے ایک پیسہ کسی ضرورت مند کو دے دیتے 1948 ء میں میٹھا در کے علاقے میں قائم ہونے والی بانٹوا میمن ڈسپنسری سے ان کے فلاحی مشن کی ابتدا ہوئی۔ ڈسپنسری کو چلانے کے لئے میمن برداری نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا اور ایک آٹھ رکنی بورڈ بھی تشکیل دیا تھا۔

مولانا عبدالستار ایدھی اس بورڈ کے سب سے کم عمر رکن تھے۔ وہ اس ڈسپنسری کے سامنے ہی سو جایا کرتے تھے تا کہ کسی کی مد دکوفوری پہنچ سکیں۔اس ڈسپنسری سے غریبوں کو مفت علاج کی سہولت دی جاتی تھی۔ 1957 ء کو جب کراچی میں ہانگ کانگ فلو کی وباء پھیلی اور اس جان لیوا مرض کے باعث ہزاروں لوگ اللہ کوپیار ہوئے تو مولا نا عبدالستار ایدھی نے انتھک محنت سے کراچی میں کئی جگہوں پر امدادی کیمپ لگائے۔ مفت ادویات تقسیم کیں اور سماجی کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ ان کی سماجی خدمت کے پیش نظر لوگوں نے دل کھول کر چندہ دیا۔ ایک کاروباری شخص نے انہیں میں ہزار روپے بطور عطیہ پیش کئے جس سے ایک ایمبولینس خریدی گئی۔

ڈسپنسری کے قیام کے بعد میٹرنٹی ہوم اور نرسوں کے تربیتی سینٹر کی ابتدا ہوئی۔ لاوارث لاشوں کو دفنانے کا کام بھی شروع ہوا۔ پھر انہوں نے ”ایدھی فاؤنڈیشن‘‘ کو رجسٹر ڈ کروایا اور خدمت خدا کی بے لوث خدمت کو اپنا شعار بنایا۔ ان کی سماجی خدمات کے صلے میں جامعہ کراچی کی طرف سے انہیں ڈاکٹریٹ کی اعزازی ڈگری دی گئی جس کے بعد وہ اپنے نام کے ساتھ ڈاکٹر عبدالستار ایدھی لکھتے رہے۔ میمن برداری کے سرکردہ بزرگوں کا کہنا ہے کہ مولا نا عبدالستار ایدھی کی 1965 ء میں ڈسپنسری کی ایک نرس بلقیس سے شادی ہوئی جس کے بطن سے دو بیٹے اور دو بیٹیاں پیدا ہوئیں۔ انہوں نے اپنی بیگم بلقیس ایدھی کے ساتھ مل کر ’’جھولا مہم‘‘ کی کامیابی میں کلیدی کردار ادا کیا۔

انسانوں کی خدمت کے علاوہ انہیں جانوروں سے بھی بہت محبت تھی۔ کوئی بدحال یا بیمار جانور نظر آ تا تو وہ فورا علاج کرواتے۔ کراچی سپر ہائی وے پر لاوارث جانوروں کے علاج کا ایک مرکز بھی قائم کر رکھا تھا۔ انہوں نے سینکڑوں لڑکیوں کی شادیاں کی اور بے سہارا عورتوں کے لئے شیلٹر ہومز بنائے۔ نشے کے عادی افراد کے علاج کے لئے بحالی مرکز قائم کئے۔ اس کے علاوہ ایئر ایمبولنس، بے شمارکلینکس، زچگی گھر، پاگل خانے، معذوروں کے لئے گھر، بلڈ بینک، لا وراث لاشوں کی تدفین کے لئے ایدھی قبرستان، یتیم خانے، لا وراث بچوں کو گود میں لینے کے لئے پناہ گا ئیں، سرد خانے اور کئی اسکول بھی کھولے۔

دکھی انسانیت کی خدمت کے حوالے سے ان کی شہرت پاکستان تک محدود نہیں بلکہ ان کا نام پوری دنیا میں گونجتا تھا۔
مولانا عبدالستارایدھی نے اپنے ایک انٹرویو میں کہا کہ جب میں نے انسانیت کی فلاح کے مشن پر اپنا کام کرنا شروع کیا تو مجھے اس وقت میرے خاندان کے لوگوں اور دیگر واقف کاروں نے حد درجہ تنگ اور پریشان کیا اور میرے راستے میں بے شمار رکاوٹیں بھی کھڑی کیں مگر ان تمام رکاوٹوں اور پریشانیوں کے باوجود میں نے صبر کا دامن نہ چھوڑا۔

میں نے اپنا تمام اثاثہ فروخت کر کے ’’ایدھی فری ایمبولینس‘‘ کی بنیاد رکھی۔ ایک پرانی ویگن خریدی اور اپنے کپڑے کی پرانی دوکان کو فلاحی سینٹر بنایا۔ ٹیلی فون لگوایا۔ ویگن کو ایمبولینس کی شکل دی اور مریضوں کے لواحقین سے کوئی معاوضہ تک وصول نہ کیا بلکہ میں نے اپنے فلاحی سینٹر کے سامنے ایک گلا (منی باکس) رکھ دیا تھا اور اس وقت میں اکثر یہی کیا کرتا تھا کہ آپ کو جو توفیق ہو وہ اس گلے میں ڈال دیں تا کہ انسانیت کی خدمت کا یہ مشن جاری رہے۔ آنے جانے والے بے شمار لوگ اس گلے میں آ نہ دو آنے ڈال دیتے تھے اور یہی آ نہ دو آ نے فری ایمبولینس سروس کا کل اثاثہ ہوتے تھے

اور میں اس پر خوش تھا۔ میری یہ خوشی میرے خاندان والوں کو قبول نہ تھی اور وہ مجھے سودائی اور نفسیاتی کہتے تھے کیوں کہ میرے دل میں اچھے کپڑے پہننے، اچھے جوتے خرید نے، اچھی غذا کھانے اور اچھے خوبصورت گھروں کی تمنا نہ تھی اور نہ ہی مجھے دولت جمع کرنے کی کوئی خواہش تھی۔ چنانچہ میری یہی عادتیں میرے کاروباری خاندان کے لئے نا قابل برداشت تھیں اور انہوں نے مجھے میرے فلاحی مشن سے روکنے کے لئے حد درجہ کوششیں بھی کیں مگر میں ڈٹا رہا اور مجھ پر اللہ تعالی کا مسلسل کرم ہوتارہا۔

بالآخر میں کامیاب ہوا اور میری کامیابی ہی میری زندگی کا حقیقی مشن ثابت ہوئی“
انہوں نے مذہب سے بالاتر ہو کر ساری خدمت کی اعلی مثالیں قائم اور یہ ثابت کر دیا کہ ” اگر محبت، عقیدت اور خدمت کا جذ بہ بغیر کسی لالچ اور جبر کے ہو تو تھکن حاوی نہیں ہوتی۔ ‘ ‘ مولا نا عبدالستار ایدھی عرصہ دراز سے شوگر اور بلڈ پریشر کے باعث گردوں کے عارضے میں مبتلا تھے۔ طویل العمری، شوگر اور فشار خون کی وجہ سے ان کے گردوں کی پیوند کاری ممکن نہ تھی۔ وہ 2013 ء سے ڈائیلاسس کروار ہے تھے۔

انہوں نے اپنی آنکھیں بھی عطیہ کر دی تھیں۔زندگی کے آخری ایام میں جب بیماری کا غلبہ بڑھا تو مولا نا عبدالستار ایدھی نے حکومت کی طرف سے بیرون ملک علاج کی پیش کش ٹھکرادی۔سفر آخرت تک وہ اپنا علاج سرکاری ہسپتال سے کرواتے رہے مگر انہیں کوئی افاقہ نہ ہوا۔ سانس لینے میں دشواری پر انہیں آئی سی یو میں منتقل کیا گیا۔ جہاں دوران علاج 8 جولائی 2016 ء کو 92 سال کی عمر میں انہوں نے وفات پائی۔ وصیت کے مطابق وہ خود اپنے ہاتھوں سے کھودی گئی قبر کی آغوش میں ابدی نیند سو گئے اور اپنے پیچھے ہزاروں لاوارثوں کو ایک بار پھر یتیم کر گئے۔ یہ حقیقت ہے کہ ان کے انتقال سے دنیائے انسانیت کا روشن چراغ بجھ گیا۔