عالمی سطح پر نظام کے بحران اور زوال کے نتیجے میں ہر طرف سیاسی عدم استحکام پیدا ہو چکا ہے۔ بین الاقوامی سطح پر معاشروں کے بیلنس بگڑ چکے ہیں۔ افراتفری اور بیگانگی کی کیفیت پروان چڑھ چکی ہے۔ سماجی قدریں گِر چکی ہیں۔ عمومی سوچیں تنزلی کی شکار ہیں۔ تمام تر دانش اور تجزیے سطحی نوعیت پر چلی گئی ہیں۔ سائنس و نظریات کی جگہ نعرہ بازی اور لفاظی نے لے لی ہے۔
ایسے میں سیاسی منظر پر تحریکوں کی شکل میں نئے رجحانات ابھر رہے ہیں جنہیں دانشور حلقے ‘پاپولزم’ کا نام دے چکے ہیں۔ پاپولزم کی اصطلاح لاطینی لفظ ‘پاپولس’ سے لیا گیا ہے جس کے معنی عوام کے ہیں۔ اور اس رجحان سے مراد عوام کے جذبات کی اظہار کے لیے جاتے ہیں۔
پاپولسٹ رجحانات کے اندر ایک طرف عوام کا غم و غصہ اور انکے جذبات ہوتے ہیں اور متحارب رْخ پر اسٹیبلشمنٹ یا پاور اسٹرکچر ہوتا ہے جس کے خلاف ساری تحریک چل رہی ہوتی ہے۔ اسکے کوئی مخصوص کرکٹرسٹکس تو نہیں ہوتے بلکہ اس کے معنی تنظیم یا لیڈر کے نظریے کے مطابق مختلف ہو سکتے ہیں۔ لیڈر دائیں بازو یا بائیں بازو کا ہوگا، حکمران طبقے یا محکوم طبقے سے ہوگا، لبرل یا کنزرویٹیو ہوگا اس کے مطابق تحریک کی پوزیشن یا سمت بندی ہوتی ہے۔
اکثر بحرانات کے عہد میں ابتر معاشی صورتحال اور سماجی گھٹن کے اندر ذلت سے دوچار عوام آسودگی اور معیار زندگی میں بہتری کی خاطر ‘آسان ترین’ راستے کا انتخاب کرتے ہیں۔ ثقافتی پسماندگی اور نفسیاتی گراوٹ کی وجہ سے لوگ نجات دہندوں و مسیحاؤں کی تلاش شروع کر لیتے ہیں اور ان سے امیدیں وابستہ کرتے ہیں۔ وہ خودکاری کے بجائے پیروکاری کے شکار بن جاتے ہیں۔ ایسے میں اگر کوئی “ہیرو” نما لیڈر ابھر آئے تو اس کے پیچھے اندھے عقیدت مندوں کی طرح چل پڑتے ہیں۔اس قسم کے رجحانات کو وقتی طور پر بڑے جلسے جلوس کی صورت میں عوام کی بڑی بھیڑ مل جاتی ہے مگر درست نظریات سے بے بہرہ پاپولسٹ لیڈر کبھی بھی حریت پسند اور انقلابی تحریکیں نہیں ابھار سکتے۔ وقتی ابھار اور پھر جھاگ کی طرح بیٹھ جانا کئی سارے پاپولسٹ رجحانات کی تاریخ رہی ہے۔
موجودہ عہد کے اندر پاپولسٹ لیڈروں کی اکثریت میں فلم اسٹار، کامیڈین، اسپورٹس مین، بزنس مین، مذہبی پیشوا، ریٹائرڈ فوجی و بیوروکریٹ اور غیر سیاسی لوگ شامل ہیں۔ جوکہ یا تو پہلے سے بہت پاپولر ہیں یا پھر پاپولر نعروں کی وجہ سے شہرت کی بلندیوں پر پہنچے ہیں۔
امریکہ کے ڈونلڈ ٹرمپ سے لے کر یورپ کے میرین لی پن، میکرون، الیکسس سیپراس، طیب اردگان، اور انڈیا کے نریندرا مودی سے پاکستان کے عمران خان تک اور دیگر کئی سارے اسی پاپولزم کے رجحان کے تحت ابھر کر منظر پر آئے ہیں۔ اور انکی سیاست کسی سائنسی نظریے، پروگرام یا حکمت عملی کے بجائے مخصوص و محدود نعروں کے گرد بندھی ہے۔
پاپولزم میں نظام کے بحران کو ایک کْل کے اندر سمجھنے کے بجائے اسے محدود کر کے دیکھا جاتا ہے۔ اور ایک یا چند مخصوص جْز کولے کر اس پر ساری سیاسی نعرے بازی ہوتی ہے۔ جبکہ پاپولسٹ لیڈر کو خود بھی ادراک نہیں ہوتا کہ مسائل کے ابھرنے یا انکے حل کے پیچھے کون کونسے عوامل کارفرما ہوتے ہیں۔ ساری سیاست ایشوز کے گرد ہو رہی ہوتی ہے جس کے دیر تلک جاری رہنے کے امکانات ہمیشہ کم ہی ہوتے ہیں۔
نظریات سے عاری پاپولسٹ لیڈر مختلف ابہام کے شکار بھی ہوتے ہیں۔ یہ سمجھتے ہیں کہ صرف وہ ہی لوگوں کے حقیقی نمائندہ ہیں اور حقیقی ماسز بھی وہی ہیں جنکی نمائندگی یہ کرتے ہیں۔ پاپولسٹ لیڈر کے نزدیک ان کے حریف سارے کرپٹ اور نا اہل ہیں اور ان کرپٹ اور نا اہلوں کے پیچھے چلنے والے لوگ حقیقی انسان بھی نہیں ہیں۔ پاپولسٹ لیڈر خود کو اپنے سرکل میں موجود لوگوں کا بھی نمائندہ سمجھتے ہیں اور اْس اکثریت کا بھی نمائندہ تصور کر لیتے ہیں جو خاموش ہیں۔ اسی لئے نعرے بازی کی سیاست کے اندر تحریک کو درست سمت دینے اور سماج کا سائنسی تجزیہ کرکہ اسے تبدیل کر دینے کی امیدیں جلد ہی ماند پڑ جاتی ہیں۔
ہم چونکہ گلوبل ورلڈ کے ایک جْز کے طور پر کرّہ ارض کا حصہ ہیں تو اس کی معاشی عروج و زوال اور سماجی و سیاسی رجحانات کا ہم پر اثر ہونا بھی ناگزیر ہے۔ اسی لئے بین الاقوامی سطح کے نظریات و رجحانات کی شعوری یا لاشعوری نقالی ہمارے ہاں بھی ہو رہی ہے۔
موجودہ وقت میں ہمارے ہاں ‘حق دو تحریک’ یا پھر مولانا ہدایت الرحمان کو لے کر بڑی بحث چڑ گئی ہے۔ جس پر معتبر حلقوں کی آراء آ رہی ہیں جن سے ہم سیاست کے طالب علموں نے بڑا استفادہ بھی کیا ہے۔ اب اپنی طرف سے ایک چھوٹی سی کاوش ہے کہ اس تحریر کے ذریعے تحریک کے تھیوریٹکل بنیادوں پر کچھ بحث کریں۔
(جاری ہے)