سپریم کورٹ نے وزیراعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد کے دوران قومی اسمبلی کے ڈپٹی اسپیکر کی رولنگ کے خلاف از خود نوٹس کا تفصیلی فیصلہ جاری کردیا۔تفصیلی فیصلہ 86 صفحات پر مشتمل ہے جسے چیف جسٹس عمرعطا بندیال نے تحریر کیا ہے۔فیصلے کے چند مندرجات سے یہ واضح ہوجاتا ہے کہ پی ٹی آئی کے دعوؤں میں کتنی صداقت ہے اور کس طرح سے ایک جھوٹا بیانیہ بناکر عوام کو گمراہ کرکے انتشار کی سیاست کو فروغ دیا جارہا ہے۔
عدالتی فیصلے میں کہا گیا ہے کہ عدالت کے سامنے بیرونی سازش سے متعلق ثبوتوں میں صرف ڈپٹی اسپیکرکا بیان ہے، ڈپٹی اسپیکر کی رولنگ میں نہیں بتایا گیا کہ مراسلے کے مطابق وزیراعظم کو ہٹانے کیلئے اپوزیشن میں کس ممبر نے بیرون ملک رابطہ کیا، ڈپٹی اسپیکر کی تفصیلی رولنگ میں نہیں بتایاگیا مبینہ مراسلے کے مطابق حکومت گرانے میں کون شامل ہے؟فیصلے میں قرار دیاگیا کہ آرٹیکل 69(1) واضح ہے کہ پارلیمانی کارروائی کو عدالت سے تحفظ حاصل ہے
لیکن پارلیمانی کارروائی میں آئینی خلاف ورزی ہو تو اس پر کوئی تحفظ حاصل نہیں، عدالت مقننہ کے معاملات میں آئینی حدود پار نہ ہونے تک مداخلت نہیں کرے گی، آئین کے آرٹیکل 95 (2) کے تحت اسپیکر تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ کرانے کا پابند ہے۔
فیصلے میں کہا گیا ہے کہ ڈپٹی اسپیکر رولنگ کو آئینی تحفظ حاصل نہیں، ڈپٹی اسپیکر نے رولنگ دینے کا فیصلہ ذاتی طورپر وزیرقانون کے کہنے پر لیا، عدالت آرٹیکل 69 (1) پر اپنا مؤقف واضح کرتی ہے، ڈپٹی اسپیکرکے اپنے اختیارات سے متعلق آرٹیکل 69 (1) پرعملدرآمد میں نقائص تھے،
تحریک عدم اعتماد 8 مارچ کوپیش ہونے کے بعد 22 مارچ کو اجلاس نابلاکراسپیکرنے آئینی خلاف ورزی کی اور اسپیکرنے 3 اپریل کے اجلاس میں تحریک عدم اعتماد پر اپوزیشن کوبحث کاموقع نہ دیکرآئینی خلاف ورزی کی۔بہرحال پی ٹی آئی نے بیرونی مداخلت اور عمران خان نے اپنے خلاف عدم اعتماد کی تحریک کو غلط رنگ دے کر اب بھی ڈھٹائی کے ساتھ اسی بیانیہ کولے کر پنجاب میں ضمنی انتخاب کی مہم چلار ہے ہیں۔
یہ بات پہلے ہی سب پر عیاں تھی کہ کسی قسم کی کوئی سازش نہیں ہوئی تھی پی ٹی آئی خود اندرون خانہ اختلافات کا شکار ہوگئی تھی جبکہ پی ٹی آئی کی بیڈگورننس اور کرپشن ان کی حکومت کے دھڑن تختے کی اہم وجوہات تھیں۔
جس طرح کے انکشافات اب بنی گالا کے حوالے سے سامنے آرہے ہیں وہ خوفناک ہیں کہ کس طرح سے پنجاب سمیت حکومتی مشینری کو چند افراد چلارہے تھے اس میں بشریٰ بی بی، فرح گوگی سمیت دیگر کردار ہیں جنہوں نے پورے نظام کو اپنے گرد گھمائے رکھا۔ پی ٹی آئی جس تبدیلی اور انقلاب کا سلوگن لے کر آئی تھی اس پر رتی برابر بھی عمل نہیں ہوا،افسوس کا مقام تو یہ ہے کہ اسلام کا سہارا لیکر پی ٹی آئی اب تک سیاست کررہی ہے،
جب پی ٹی آئی کی حکومت بنی تو یہ دعویٰ کیا گیا کہ ریاست مدینہ کی طرز پر حکومت ہوگی، کوئی ایک مثال دی جائے جو اس سے مماثلت رکھتی ہو۔ پی ٹی آئی حکومت نے جوکارنامہ سرانجام دیئے اس کے اثرات معیشت کے حوالے سے سامنے ہیں کہ ملک کو قرضوں میں ڈبوکر رکھ دیا گیا اور سارا بوجھ عوام پر لادھ دیا گیا۔
جن قرضوں کو منہ پر مارنے کے دعوے کئے جارہے تھے مزید قرضے لے کر ملک کو دیوالیہ کرکے رکھ دیا گیا۔ بہرحال سپریم کورٹ کے تفصیلی فیصلے کے باوجود بھی پی ٹی آئی اپنے جھوٹے بیانیہ کو آگے بڑھائے گی اور اداروں پر حملہ آور ہوکر دباؤ میں لانے کی کوشش کرتی رہے گی۔ الیکشن کمیشن بھی پی ٹی آئی کے نشانے پر ہے جس کا صرف ایک ہی مقصد ہے کہ عمران خان اس ملک کا واحد حکمران ہو اور باقی تابعداری کے ساتھ ان کے حکم کی تعمیل کریں۔ اس طرح کی سوچ ملکوں کی ترقی نہیں بلکہ زوال کا سبب بنتی ہے۔