|

وقتِ اشاعت :   July 15 – 2022

بلوچستان جوکہ سات دہائیوں سے جبر و استحصال اور سامراجی تسلط کے زیر اثر ہے۔ بالخصوص دو دہائیوں سے تو یہ دھرتی جنگی اکاڑہ بنا دی گئی ہے جس سے مکمل آبادی متاثر ہے۔ ماس کلنگ، ماس مائیگریشن، اجتماعی قبریں و اجتماعی سزائیں، جبری گمشدگیاں، وسائل کی بے دریغ لوٹ مار، سیاست و صحافت و ادب پر پابندی، ذریعہ معاش پر بندشیں۔۔۔ الغرض ہر طرح سے زمین زادوں پر زمین تنگ کر دی گئی ہے۔ جمہوری سیاست کے داعی قوم پرست جماعتوں کو یا تو پیچھے دھکیل کر ختم کر دیا گیا یا پھر ان کے اندر سے ساری مزاحمت کی گرمائش نکال کر انہیں مصلحت پسندی و تابعداری پر لگا دیا گیا۔ ایسے میں عوام کے جذبات کی درست ترجمانی کا خلا پیدا ہوگیا اور عوام نے قوم پرست لیڈرشپ اور انکی جماعتوں سے کنارہ کشی اختیار کر لی۔
ظلم و ستم کے عالم میں عوامی غم و غصہ مجتمع ہو کر جذبات کے ایسے نہج تک پہنچ جاتی ہیں کہ ایک معمولی سا حادثہ بھی بارود کے ڈھیر پر انگارے کا کام کرتی ہے۔ اور یہ خوبصورت حادثہ دہائیوں کی سکونت و خاموشی اور تاریکی کو آتش فشاں کی طرح بلاسٹ کرکے روشن کر دیتی ہے۔ ایسے میں انقلابی قیادت یا موضوعی عنصر کی موجودگی ہی عوامی ابھار کو تحریک میں ڈھال کر منطقی منزل تک پہچا سکتی ہے۔ جبکہ انقلابی قیادت کی عدم موجودگی کی صورت میں تحریک حادثاتی لیڈرشپ کے ہاتھوں میں جا کر پروگرام و نظریہ کے بغیر محض ایشوز بیسڈ سیاست کی نظر ہوکر زائل ہو جاتی ہے۔
ایسے مواقع ماضی قریب میں بھی بلوچ سماج کے اندر آئے ہیں کہ جب حادثوں نے شعور کی پرورش کی ہے اور منظم جدوجہد کے راستے ہموار کئے ہیں۔ بالخصوص 26 مئی 2020 کو سانحہ ڈنّک یا برمش کے واقعے نے پورے دہائی کی خاموشی کو توڑ کر عوام کو اپنے جذبات کے اظہار کا راہ دکھا دی۔ برمش یکجہتی کمیٹی اور بعدازاں بلوچ یکجہتی کمیٹی کے نام سے شروع کیئے گئے احتجاجی سلسلے بلوچستان کے طول و ارض میں پھیلتے گئے جوکہ ماضی قریب کی سب سے بڑی و متاثر کْن احتجاجی سلسلوں کی شکل اختیار کر گئی۔ مگر قیادت کے فقدان اور نعروں کی محدودیت نے اسے تحریک میں ڈھالنے کے بجائے ایونٹس آرگنائزنگ فرنٹ کے طور پر محدود رکھا۔اس کے بعد مختلف ایونٹس ہوئے ہیں مگر قابل ذکر تحریک جوکہ ہمارا موضوع بھی ہے، وہ بلوچستان کی ساحل سے اٹھنے والی “حق دو تحریک” ہے۔
بلوچستان کے ساحل سے ابھرتے تحریک سے عوام کی بڑی اکثریت متوجہ ہوگئی۔ مکران کے اندر بالخصوص تحریک کا والہانہ استقبال ہوا۔ البتہ سیاسی حلقوں میں پہلے روز سے کنفیوژن موجود تھی کہ وہ اسے قومی تحریک کا نیا فیز سمجھ رہے تھے یا کچھ حلقے اسے قوم پرست سیاست پر حملہ یا اسکا نعم البدل تصور کر رہے تھے، جوکہ مظاہر کو سطحیت کی بنیاد پر دیکھنے کا عمومی سماجی رویہ ہے۔
حق دو تحریک کا مرکز گوادر رہا، جس کی سیاست، طبیعت و مزاج باقی ماندہ بلوچستان کی نسبت قدرے مختلف ہے۔ اس لئے گوادر کے عوام پر ماضی میں طنزیہ باتیں بھی کسی جاتی رہی ہیں مگر مذکورہ عوامی سرکشی نے سب کی بولتی بند کر دی اور گوادر کو بلوچستان کی مزاحمت کا مضبوط چہرہ ثابت کر دیا۔
گوادر درحقیقت محنت کشوں کی بستی ہے۔ یہاں بسنے والوں کی جدی پشتی ذریعہ معاش ماہی گیری کی محنت سے وابستہ ہے۔ گوادر کے قریباً نوّے فیصد لوگ بالواسطہ یا بلاواسطہ سمندر کی معاش کے ساتھ منسلک ہیں۔ حالیہ سامراجی منصوبوں جیسے کہ گوادر ڈیپ سی پورٹ اور چائنہ پاکستان اکنامک کوریڈور کی وجہ سے گوادر کو بین الاقوامی سطح کے شہر کے طور پر متعارف کروایا گیا۔ اور ان میگا پراجیکٹس کی وجہ سے یہاں بسنے والوں کی روزمرہ زندگی کے معمولات پر گزند پڑا اور انکے ذریعہ معاش متاثر ہوا۔ بالخصوص ماہی گیری کی صنعت سیکیورٹی کے نام پر بے جا پابندیوں کی زد میں آکر شدید متاثر ہوا۔
مقامی ماہی گیروں کے آزادانہ شکار اور سمندر میں آمد و رفت کو محدود کر دیا گیا۔ جبکہ سندھ سے لے کر چین تک کے بڑے ٹرالرز نے آکر مچھلیوں کی نسل کشی شروع کر دی جس سے گوادر کے مقامی ماہی گیروں کا روزگار تباہ ہوگیا۔ اس کے خلاف عوامی حلقوں میں ریاستی میگا پراجیکٹس اور سیکیورٹی اداروں کے خلاف شدید نفرت پیدا ہوگئی اور وہ ایک ایسے موقعے کی تلاش میں تھے جو انہیں ان ذلتوں سے نجات کی راھ دکھا دے۔ اسی دوران مولانا ہدایت الرحمان نے عوام کے جذبات کو تحریک کی شکل میں ایک اظہار دیا اور بہادری کے ساتھ انکی ترجمانی کی۔
لوگوں نے لمحہ بھر کیلئے یہ نہیں سوچا اور ٹٹولا کہ یہ شخص جو اتنی بہادری کے ساتھ ڈٹ کر کھڑا ہے یہ کون ہے، کہاں سے ہے اور اسکی کیا وابستگیاں ہیں۔۔۔ بلکہ انہوں نے یہ دیکھا کہ یہ اس “پاپولس” کے امنگوں کی صحیح معنوں میں ترجمانی کر رہا ہے، سو، انکا مسیحا ہے اور وہ ان کے پیچھے چل پڑے۔ اس پر نا تو لوگوں کے جذبات کو پیڈ یا پلانٹڈ کہنا مناسب ہوگا اور نا ہی مولانا کی تحریک کے اندر مداخلت کو سطحی تنقید کا نشانہ بنا کر بے جا الزامات لگانا جائز ہے۔ عوام کے ان جذبات کو کوئی دوسرا لیڈر بھی راستہ دکھا سکتا تھا مگر روایتی لیڈرشپ اپنے کمفرٹ زونز کے اندر مشغول تھے، سو مولانا ہدایت الرحمان نے کمان سنبھال لیا۔
مولانا ہدایت الرحمان نے سمندر میں آزادانہ شکار، ٹرالرنگ کی بندش، چیک پوسٹوں پر تذلیل کے خاتمے، منشیات کا خاتمہ اور دیگر مطالبات کے گرد تحریک کو منظم کرتے ہوئے تاریخی دھرنے کا اعلان کیا جوکہ 32 دنوں تک گوادر میں بیٹھا رہا جس سے بلوچستان بھر کے عوام متاثر ہوئے اور پاکستان کے بڑے بڑے سیاستکار اور ساہوکار بھی دیکھ کر دھنگ رہ گئے۔
حق دو تحریک کا تاریخی دھرنا بالآخر وزیر اعلیٰ بلوچستان کے ساتھ تحریری معاہدے کے بعد اختتام پذیر ہوگیا۔ مگر مولانا نے اپنی تحریک کو وسعت دینے کی مسلسل جدوجہد جاری رکھی۔ انہوں نے کیچ، پنجگور اور کوئٹہ سمیت دیگر شہروں کے سیاسی دورہ شروع کیئے اور اپنے لئے بلوچستان کے سطح کی اسپیس بنانے کی کوشش کی۔ مولانا خود کو بلوچستان کے ساحل یا سمندر کے محنت کشوں کا لیڈر ثابت کرنے میں کامیاب ہوگئے مگر انہیں وہ اسپیس اور پذیرائی باقی ماندہ بلوچستان یا مکران کے باقی دو اضلاع کیچ اور پنجگور میں نہیں ملی ہے جو انہیں گوادر سے ملی تھی۔
کیچ کے اپنی مادی حالات ہیں اور یہاں کی سیاسی طبیعت بھی گوادر کی نسبت مختلف ہے تو شہری سیاست کے اندر خاص طور پر مولانا اسپیس بنانے میں ناکام رہے۔ البتہ انہوں نے بارڈر پر روزگار کرنے والوں کیلئے آزاد تجارت اور ٹوکن سسٹم کے خاتمے کے مطالبات پیش کیئے۔ جس پر بارڈر سے منسلک لوگ بالخصوص مضافات کے عوام نے حق دو تحریک کی طرف رجوع کیا۔ جبکہ شہری عوام اپنے روزگار اور پارٹی پالیٹکس کے اندر ہی مشغول رہے۔ اسی طرح پنجگور کے اندر مولانا کو اپنے نعرے بارڈر، امن و امان اور ڈیتھ اسکواڈز کے خاتمے کے گرد رکھنے پڑے۔ مگر وہاں بھی خاطرخواہ اسپیس بنانے میں اب تک کامیاب نہیں ہوئے ہیں۔
یہاں بھی پاپولزم کی محدودیت کو سمجھنے کی ضرورت ہے کہ پاپولسٹ لیڈر شہری سیاست کے حصار میں جلدی پھنس جاتے ہیں اور وہ ان ایشوز کی پرچار زیادہ کرتے ہیں جو انہیں میڈیا ہائیپ مہیا کرے۔ اس میں اجتماعیت کے بجائے فرد اولیت و فوقیت پا لیتا ہے۔ جبکہ بلوچستان مجموعی طور پر ایک دیہی سماج ہے اور اس سماج کی اکثریت شہری زندگی اور ثقافت جوکہ خاص طور پر سوشل میڈیا پر زندہ ہے، اس سے کوسوں دور ہے۔ مگر مولانا نے مضافات کے بجائے شہروں کو اپنا مسکن بنائے رکھا جو میرے نزدیک انکی تحریک کے مزید محدود رہنے کے اسباب میں سے ایک ہے۔مولانا نے اپنی تقریروں میں سیکیورٹی فورسز اور حکمران طبقے کو ہمیشہ تنقید کا نشانہ بنایا۔ اسی طرح مقامی سیاستدانوں پر بھی تنقید کے گولے برساتے رہے۔یہ فطری بات ہی کہ تحریک جب پاور اسٹرکچر یا ریاست پر تنقید کے گولے برساتی ہے تو لامحالہ مقامی لیڈرشپ بھی اسکی زد میں آئے گی۔ کیونکہ مقامی لیڈرشپ بھی پاور اسٹرکچر کا حصہ ہونے کے ناطے تنقید سے مبرّا قطعی طور نہیں ہوسکتی۔ مگر جب مولانا کی طرف سے روایتی قیادت پر تنقید ہوئی تو انہوں نے اپنے اپنے پارٹی پروپیگنڈا مشینری کے ذریعے یہ بات پھیلانی شروع کر دی کہ مولانا قوم پرستی کے خلاف ہے اور نااہل قوم پرست قیادت پر تنقید کو مجموعی قوم پرست سیاست پر تنقید ثابت کرنے کی پرچار شروع کر دی گئی جس کے بعد مولانا اور انکی تحریک کے خلاف بڑا محاذ کھل گیا۔ ساتھ ہی مولانا بھی اپنی سیاسی غلطیوں کی وجہ سے خود پر تنقید کے جواز بڑھاتے رہے ہیں۔
مولانا نے اپنے محدود نعروں کو قومی نعروں میں تبدیل کرنے کی بارہا کوششیں بھی کی ہیں جیسا کہ لاپتہ افراد کا مسئلہ، بلوچستان سے ایف سی کو نکالنے کی مہم وغیرہ مگر انہیں اس ایجنڈے کو لے کر بھی پذیرائی کے بجائے اب بھی تنقید کا سامنا ہے۔مولانا کو سب سے زیادہ تنقید اور سرگرم پروپیگنڈا کا سامنا خاص طور پر بی این پی مینگل کی جانب سے ہے کیونکہ مینگل کے گوادر والے حلقے میں مولانا نے عوام کو حمل کلمتی کے خلاف بڑا متحرک کر دیا ہے۔ حالیہ بلدیاتی الیکشن میں بھی انہوں نے بھاری اکثریت حاصل کرکے کلمتی برادران کے ہوش اڑا دیئے ہیں۔ الیکشن کی سیاست میں آ کر مولانا نے گوادر کی انتظامی طاقت تو حاصل کر لی ہے مگر ساتھ ہی انہوں نے اپنی سیاسی تحریک کو بہت محدود بھی کر دیا ہے۔ لوگوں کے توقعات تھے کہ مولانا قومی سطح کی نمائندگی کریں گے مگر وہ ان امیدوں پر پورے نہیں اتر سکے ہیں۔
بحیثیت قوم پرست اور قومی لیڈر کے سردار اختر مینگل نے بھی موجودہ وقت کے پاپولر ترین ایجنڈا، لاپتہ افراد کے ایجنڈے پر سیاست کرکے بڑی حمایت سمیٹ لی ہے اور اس پر 2018 کے انتخابات میں اچھی خاصی نشستیں بھی حاصل کی ہیں۔ اب اس مخصوص ایجنڈے پر وہ اور انکی جماعت اپنی اجارہ داری کا دعویٰ محفوظ رکھتے ہیں اس لئے حق دو تحریک یا کسی دوسرے تنظیم کو یہ موضوع چھیڑنے کی اجازت نہیں دیتے۔لاپتہ افراد کے ایجنڈے کولے کر خصوصی طور پر سردار اختر مینگل نے قومی سطح کی اسپیس پر اپنی جگہ مضبوط کر لی ہے۔ اس پر انہوں نے پارلیمان سمیت پبلک فورمز پر خوبصورت تقاریر کی ہیں۔ مگر انہوں نے یا دوسری قوم پرست جماعتوں نے لاپتہ کرنے والوں کے احتساب کیلئے کوئی خاص تحریک نہیں چلائی، نا انہوں نے حکومتوں کی حمایت پر جبری گمشدگیوں کے خلاف قانون سازی کو پہلی ترجیح پر رکھا، نا ہی جبری گمشدگیوں کے پیچھے کارفرما عوامل پر کبھی کھل کر کوئی بیانیہ پیش کیا۔
بلوچستان کے اکثر قومی سطح کی لیڈرشپ اور جماعتوں نے ہمیشہ سطحی اور پاپولر سلوگن کو اپنی سیاست کا ذریعہ یا ایجنڈا بنایا ہے۔ وہ ہمیشہ نظام کو چیلنج کرنے سے کتراتے ہیں۔ اسی طرح ہدایت الرحمان نے بھی اپنے مطالبات میں ایف سی کے ضروری اور غیر ضروری چیک پوسٹوں کا بیانیہ پیش کیا۔ گویا کچھ شاہراہوں پر عوام کی تلاشی و تذلیل جائز اور کچھ مقامات پر ناجائز ہے۔ عالمی سطح پر اس وقت کم تر برائی کے فلسفے کے تحت سیاسی انتخاب کا چرچا ہے جبکہ ہمارے ہاں ذلتوں میں رعایت، لاپتہ کی فقط بازیابی اور چیک پوسٹوں پر نرمی وغیرہ آسان ترین راستے ہیں۔ یہ آسان راستے قائدین نے بھی چْن لیئے ہیں اور عوام نے بھی تسلیم کر لیے ہیں۔
“اتنے محدود کرم سے تو تغافل بہتر
گر ترسنا ہی مجھے تھا تو ترستا جاتا”
(جاری ہے)