|

وقتِ اشاعت :   July 15 – 2022

ایک حقیقت یہاں واضح کرنا ضروری ہے کہ پاپولسٹ تحریکوں کے اندر عوام کی سب سے بڑی بھیڑ اْس آبادی سے ہوتی ہے جو اس سے پہلے کسی سیاسی تنظیم یا جماعت کا حصہ نہیں ہوتے۔ سو، انہیں کوئی غرض نہیں ہوتا کہ انہیں لیڈ کرنے والا کون ہے یا کہاں سے آیا ہے بلکہ انکے نزدیک انکے غم و غصے اور جذبات کی درست ترجمانی اہم ہوتی ہے۔یہاں اگر قیادت باصلاحیت ہو اور انقلابی وژن رکھتی ہو تو ایسی تحریک جلد ہی بڑی پارٹی کی شکل اختیار کر سکتی ہے۔ ایسی پارٹیاں چوک و چوراہوں پر بن جاتی ہیں اور ان میں مزاحمت کا بڑا جذبہ بھی ہوتا ہے۔ اسی لئے بھی روایتی لیڈرشپ خوفزدہ ہوتی ہے کہ کہیں انکی روایتی پارٹیوں کے بالمقابل کوئی نئی پارٹی تشکیل نہ پائے۔جو سیاسی کارکنان دیگر پارٹیوں کے اندر موجود ہیں وہ اکثر اس غلطی فہمی کے اندر مبتلا ہوتے ہیں کہ چونکہ وہ اور انکے جاننے والے دوسرے کارکنان اس پاپولسٹ تحریک کا حصہ نہیں ہیں، اس لئے اسے سماج کی مسترد شدہ تحریک مان لینا چاہیے۔ یہ صریحاً اجارہ پرست سیاسی کارکنوں کی بہت بڑی غلط فہمی و نابودی ہے۔اسی بناء پر حق دو تحریک کو یکسر اِگنور کرکہ اسے عوامی حمایت سے بے بہرہ قرار دے دینا بھی خود کو دھوکہ دینے کے مترادف ہوگا۔ حق دو تحریک کو عوام کے اندر پذیرائی حاصل ہے اور وہ ایک ایسے بڑے حلقے کو سڑکوں پر لے آئی ہے جو اس سے پہلے کبھی سیاسی سرگرمیوں کا حصہ نہ تھے۔ البتہ تحریک کی قیادت کا امتحان اب آن پہنچا ہے کہ وہ اسکے مستقبل کا کیا فیصلہ کریں گے اور کیسے اسے عوام کی وسیع تر حلقوں تک پہنچانے کی حکمت عملی ترتیب دینگے۔ تحریک کے قائد مولانا ہدایت الرحمان کی ہچکولے کھاتی کشتی اس تحریک کو کیسے نیّا پار کرائے گی اب تک اسکے امکانات واضح و روشن نہیں نظر آ رہے ہیں۔
بدقسمتی سے بلوچ سماج کے اندر ابھرنے والے اکثر رہنما اپنی طاقت کو منظم قومی شکل دینے کے بجائے اپنی توانائیاں آپس میں ایک دوسرے کے خلاف صرف کرکے ضائع کر دیتے ہیں۔ اس وقت حق دو تحریک اور روایتی جماعتوں کا آپس میں محاذ آرائی اسی سطحی سیاست اور قومی وژن سے بے بہرہ ہونے کا نتیجہ ہے۔قومی رہنما ہونے کیلئے فقط قوم پرستی کا لحاف اوڑھ لینا کافی نہیں ہوتا بلکہ اپنے سماج کا سائنسی تجزیہ کرکے اس کے مطابق قومی پروگرام تشکیل دینا ضروری ہوتا ہے۔
قومی تحریک قومی سطح کا نظریہ رکھتی ہے۔ اسکے معاشی، معاشرتی اور سیاسی خدوخال کا احاطہ پہلے سے طے شدہ ہوتا ہے۔ یہ چند نعروں تک محدود نہیں ہوتی بلکہ اس کا ایک قومی سطح کا مربوط پروگرام ہوتا ہے۔ جہاں تک بلوچ نیشنلزم کا تعلق ہے تو اس وقت مختلف طبقہ فکر سے تعلق رکھنے والے سیاسی کارکنان کیلئے اسکے معنی اور تشریح مختلف لیے جاتے ہیں۔ آزادی پسند سرمچار قوم پرستی کی تشریح اپنے مطابق کرتا ہے۔ پارلیمان پرست قوم پرستی کی سیاست کو اپنے مفادات کے مطابق الگ تشریح کرتا ہے۔ ملّا کیلئے قوم پرست سیاست کے معنی الگ اور سوشلسٹ کیلئے مختلف ہیں۔ جبکہ کچھ کچھ بنیاد پرست بھی پائے جاتے ہیں۔
بلوچ سماج ایک جمہوری معاشرہ ہے۔ اس میں مختلف رنگ پائے جاتے ہیں۔ یہ کوئی یک زبان و یک نسل قوم بھی نہیں ہے۔ حتیٰ کہ علاقائی سطح پر رسم و رواج میں بھی فرق پایا جاتا ہے۔ مگر اس میں قومی ایکتا اور یکسوئی ایک مسلمہ حقیقت ہے۔ یہاں سب کیلئے گنجائشیں موجود ہیں۔ جس چیز کی گنجائش نہیں ہے وہ ‘بنیاد پرستی’ اور تنگ نظری ہے۔ ضروری نہیں ہے کہ بنیاد پرستی صرف ملّا کرے، یہ کام نیشنلسٹ بھی کر سکتے ہیں۔ اسی تنگ نظری اور بنیاد پرستی سے سنجیدہ سیاسی حلقے ڈر رہے ہیں اور انکا اعتراض بھی یہی ہے جسکی وجہ سے اس وقت مولانا کی پارٹی وابستگی کو تنقید کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔
جس طرح تحریر کے پہلے حصے میں بحث کیا گیا کہ عوام کی تمام تر سرکشیاں نظام کے بحران اور زوال کے نتیجے میں اٹھ رہی ہیں۔ اس میں فرد کا کرشماتی کردار ثانوی ہے۔ اس لئے عوام جس مقصد کیلئے اٹھ رہے ہیں، اگر وہ حاصل نہ ہوا تو انہیں فرد کو ترک کردینے میں کوئی دقّت پیش نہیں آئے گی۔ لیکن عوام کی سرکشیوں کو بند گلی میں لے جانے اور مایوس کرنے کے سلسلے کو اب روک لگانا پڑے گا۔
ماسز کا تحریکوں کی طرف بھاری اکثریت کے ساتھ چڑ دوڑنا ظاہر کرتا ہے کہ سیاسی منظر پر موجود جماعتیں قوم کی درست ترجمانی کرنے کی اہلیت کھو چکی ہیں اور ایک بہت بڑا خلا موجود ہے جسے حقیقی انقلابی نظریہ و پروگرام کے ساتھ پْر کیا جا سکتا ہے۔ایسا نظریہ جس میں تنگ نظری اور بنیاد پرستی کی گنجائشیں موجود نہ ہوں۔ پاپولسٹ نعروں کی گونج گرج کے اندر محدودیت کی شکار نہ ہو۔ علاقائی سیاست و سلیبرٹی پالیٹکس کے بجائے انقلابی تحریک کی شکل میں ہو۔ تب جا کر قوم کی امیدوں اور امنگوں کے ساتھ انصاف ہو پائے گا۔
قوم کے تمام پاپولر اور نان پاپولر قائدین کو سمجھنا پڑیگا کہ بلوچ سماج ایک ‘نوآبادی’ ہے۔ اور نوآبادیت سرمایہ داری نظام کی بائی پراڈکٹ ہے۔ اس نظام کے خمیر کے اندر استحصال موجود ہے۔ اس لئے نوآبادی سماج کے اندر پاپولسٹ تحریکیں دیر تلک نہیں چل پاتی ہیں کیونکہ نوآبادی نظام کو اصلاحات کے ذریعے ٹھیک نہیں کیا جا سکتا، نا ہی نوآبادی باشندے روزانہ چوک و چوراہوں پر نعرے بازی کرنا افورڈ کر سکتے ہیں۔
کسی نظام کی خرابیوں کو چیلنج کرنے اور بحیثیت مجموعی پورے نظام کو چیلنج کرنا دو الگ باتیں ہیں جس نظام کے خمیر میں استحصال پوشیدہ ہو اسے ‘ٹھیک’ کرنے کی نعرہ بازی بہت بڑا فریب اور عیّاری ہے۔ کسی تحریک کی قیادت کا شرف اگر لیڈر کو ملا ہے تو اسے پورے نظام کے تناظر میں دیکھنا اور سمجھنا پڑے گا۔ اور اسکے مطابق انقلابی پروگرام ترتیب دینا ہوگا۔ ماسز روز روز سڑکوں کی دھول چاٹنے میدان میں نہیں اترا کرتے بلکہ یہ تاریخ کے وہ غیرمعمولی لمحات ہوتے ہیں کہ جب ماسز میدان میں آتے ہیں۔ انہیں انقلابی راہ دکھانا اور درست حکمت عملی پیش کرنا قیادت کی ذمہ داری اور تاریخی فریضہ ہے۔(ختم شد)