|

وقتِ اشاعت :   July 18 – 2022

پی ٹی آئی کی جیت اور حکومتی جماعت کے نمائندگان کی ہار کے اسباب کیا ہوسکتے ہیں اگر جائزہ لیاجائے تو موجودہ معاشی بحران اور مسائل حکومت کی شکست کی وجہ بنی ہے یا پھر حکمت عملی اور نمائندگان کے چناؤ میں غلط فیصلے کئے گئے ہیں، اصل مسئلہ جو واضح طور پر نظر آرہا ہے وہ مہنگائی یا دیگر بحرانات نہیں ہیں بلکہ ن لیگ کی جانب سے جن امیدواران کو میدان میں اتارا گیا تھا وہی سب سے بڑی شکست کی وجہ بن کر سامنے آئی ہے۔

اس کا موجودہ مہنگائی اور بحرانات سے تعلق نہیں ہے کیونکہ پی ٹی آئی حکومت کی کارکردگی اتنی بہتر نہیں تھی کہ ملک میں سب کچھ اچھا چل رہا تھا عوام معاشی لحاظ سے خوشحال تھے بحرانات نہ ہونے کے برابر تھے قرض لینا چھوڑ دیا گیا تھا اور نہ ہی اس بات پر اتفاق کیا جاسکتا ہے کہ موجودہ بیانیہ جو پی ٹی آئی لیکر چل رہی ہے اسی کی مقبولیت ہے، اس میں صرف ایک ہی عنصر واضح ہے ضمنی انتخابات کے دوران امیدواروں کا چناؤ اور مہم میں خامیاں بہت زیادہ دکھائی دے رہی ہیں یہی وجہ شکست کی بنی ہے۔بہرحال اب پنجاب میں پی ٹی آئی بڑی جماعت بن کر سامنے آئی ہے۔

پنجاب کی 20 نشستوں پر ہونے والے ضمنی انتخابات کے نتائج سامنے آنے کے بعد صوبائی اسمبلی میں پارٹیوں کی پوزیشن سامنے آگئی ہے جس کے تحت پی ٹی آئی اسمبلی میں سب سے زیادہ نشستوں کے ساتھ اوپر ہے۔پنجاب میں اس وقت سامنے آنے والی پارٹی پوزیشن کے مطابق پاکستان تحریک انصاف کے اسمبلی میں پہلے 163 ممبران تھے لیکن ضمنی الیکشن میں 15 نشستیں حاصل کرنے سے اس کے ارکان کی تعداد 178 ہوگئی ہے۔پنجاب میں پی ٹی آئی کی اتحادی جماعت (ق) لیگ کے کل 10 ارکان ہیں جس کے بعد دونوں جماعتوں کے پنجاب اسمبلی میں اس وقت مجموعی طور پر 188 ارکان ہیں۔دوسری جانب مسلم لیگ (ن) کے پہلے پنجاب اسمبلی میں 164 ارکان تھے۔

لیکن ضمنی الیکشن میں 4 نشستیں لینے کے بعد اب اس کے ارکان کی تعداد 168 ہوگئی ہے۔اس کے علاوہ پنجاب میں پیپلز پارٹی کے 7 ارکان ہیں جبکہ 3 آزاد ارکان اور ایک رکن راہِ حق پارٹی کا ہے جس کے بعد (ن) لیگ کے اتحادیوں کے ساتھ کل نمبر 179 ہیں۔17 جولائی کو ہونے والے ضمنی الیکشن میں ایک آزاد امیدوار بھی کامیاب ہوا ہے جبکہ رکن پنجاب اسمبلی چوہدری نثار غیر فعال ہیں۔پنجاب اسمبلی کے 371 کے ایوان میں (ن) لیگ کے 2 ارکان کے استعفوں کے بعد اس وقت بھی 2 نشستیں خالی ہیں۔دوسری جانب پنجاب میں ضمنی الیکشن کے بعد مسلم لیگ ن کے قائد نواز شریف، پیپلزپارٹی کے شریک چیئرمین آصف زرداری اور جے یو آئی کے سربراہ مولانا فضل الرحمان کا ٹیلی فونک رابطہ ہوا ہے۔

اطلاعات کے مطابق تینوں رہنماؤں نے پنجاب ضمنی الیکشن میں ن لیگی امیدواروں کی شکست کا جائزہ لیا،پنجاب اور مرکز میں آئندہ کی حکمت عملی پر بھی تبادلہ خیال کیاگیا۔تین اتحادی رہنماؤں نے موقف اختیار کیا کہ عوام نے بڑھتی مہنگائی اور پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کا بدلہ لیا ہے۔نواز شریف کا کہنا تھا کہ وہ تو شروع دن سے ہی حکومت لینے کے حق میں نہیں تھے،تینوں رہنماؤں نے جلد عام انتخابات کروانے سے متعلق تجاویز پر بھی غور کیا اور اتفاق کیا کہ اتحادیوں کی مشاورت سے تفصیلی لائحہ عمل اختیار کیا جائے گا۔

اس وقت بھی حکومتی جماعتیں مشاورت میں لگی ہوئی ہیں کیونکہ ضمنی انتخابات میں جس طرح کی حکمت عملی اپنائی گئی تھی اس پر غور کیاجارہا ہے ساتھ ہی مستقبل کے حوالے سے لائحہ طے کرتے ہوئے عام انتخابات پر توجہ مرکوز کی جارہی ہے کہ کس طرح سے اپنے ووٹ بینک کو دوبارہ بچایا جاسکے مگر نواز شریف کے لندن پلان سے انکار نہیں کیاجاسکتا کہ اگر حکومت نہ لی جاتی اور الیکشن کی طرف جاتے تو ن لیگ کی مقبولیت مزید بڑھ جاتی۔ البتہ آئندہ چند روز میں اہم سیاسی تبدیلیاں متوقع ہیں اور سیاسی دنگل سجے گا عام انتخابات کی تیاریاں بھی واضح طور پر نظر آنے کے امکانات پیدا ہوگئے ہیں۔