|

وقتِ اشاعت :   July 20 – 2022

ملک میں آج کل اظہار رائے کی آزادی پر حکومت اوراپوزیشن جماعتیں خوب ایک دوسرے پر تنقید کررہی ہیں اور اپنے اپنے ادوار کے حوالے سے میڈیا کی آزادی کے متعلق بیانات دے رہے ہیں۔اگر حقائق کی بنیاد پر جائزہ لیاجائے تو میڈیا پر دباؤ ہر وقت حکومتوں کا رہا ہے گڈاور بیڈ کا مسئلہ حکومتوں کا مسئلہ اس وجہ سے ہے کہ کوئی بھی اپنے اوپر تنقید برداشت نہیں کرتا انہیں سب اچھا اور مثبت دیکھنا پسند ہے جس میں حکومت کی تعریف وتوصیف شامل ہو یہی طرز حکمرانی جمہوریت کے لیے سب سے بڑا مسئلہ بنی ہوئی ہے اگر آج ہمارے یہاں جمہوریت اور ادارے کمزور ہیں تو اس کی ایک بڑی وجہ کنٹرول میڈیا کا بھی ہے اگر کسی بھی میڈیا نے حقائق اور اصولوں کی بنیاد پر خبریں دیں تو اس کے لیے مسائل پیدا کئے جاتے ہیں اور سب سے بڑا ہتھیار اشتہارات کی بندش سمیت اچھے صحافیوں کو میڈیا سے دور رکھنے کی پالیسی ہے جس کی وجہ سے معلومات کی درست ترسیل نہ حکمرانوں تک ہوتی ہے اور نہ ہی عوام تک اصل حقائق پہنچتے ہیں۔

ماضی کی نسبت آج یہ حالت ہے کہ عام لوگ میڈیا کی خبروں پر زیادہ یقین نہیں رکھتے کیونکہ اس قدر میڈیا کے اندر مداخلت کرتے ہوئے من پسند افراد کو بٹھایا گیا ہے کہ وہ محض پروپیگنڈہ کرتے ہیں جوخود میڈیا کے زوال کا سبب بنا ہے۔ اگر رویوں میں بہتری لائی جائے اور میڈیا پر قدغن لگانے کی بجائے اصل حقائق کو تسلیم کرتے ہوئے مسائل کو حل کیاجائے تو اس سے ملک کا فائدہ ہوگا میڈیا کو دیوار سے لگانا کسی صورت جمہوریت اور ملکی مفاد میں نہیں ہے۔ جن ممالک میں میڈیا مکمل طور پر آزاد ہے وہاں مسائل کم ترقی زیادہ نظر آتی ہے اگر ترقی بھی نہ ہو مگرجو بحرانات کی وجوہات ہیں انہیں سمجھنے میں مدد معلومات کی وجہ سے ملتی ہے اگر اسی راستے کو روکا جائے گا تو یقینا بحرانات بہت زیادہ بڑھ جاتے ہیں جوہمارے سامنے ہے۔ میڈیا کے ساتھ گزشتہ کچھ دہائیوں کے دوران بہت زیادتی ہوئی ہے پسند اور ناپسند کی وجہ سے اچھے اور پائے کے صحافیوں کو میڈیا سے باہر کیا گیا جبکہ اشتہارات کی بندش کے ذریعے زبان بندی بھی کی گئی جس کی وجہ سے صحافی برادری کو بہت بڑا نقصان اٹھاناپڑا۔

اگر الزامات کی بجائے اپنی پالیسیوں پر نظر ثانی کی جائے اور اس کی اصلاح کرتے ہوئے مستقبل میں میڈیا کوآئین اور پیمراقوانین کے مطابق اس کا کام کرنے دیاجائے تو پشیمانی اورالزامات کا یہ سلسلہ جاری نہیں رہے گا بلکہ اس سے ملک کو بہت بڑا فائدہ پہنچے گا کیونکہ میڈیا ملک کا چوتھا ستون ہے جس کی اہمیت بھی بہت زیادہ ہے دنیا میں بھی ہماری میڈیا پالیسی کے حوالے سے امیج بہتر نہیں ہے منفی رپورٹس سامنے آتی ہیں جس پر سوچنا سیاسی جماعتوں کا کام ہے کہ اپنے مفادات کو اہمیت دیناہے یا پھر مستقبل کا شاندار پاکستان دیکھنا ہے۔ لہٰذا میڈیا کو کنٹرول کرنے کی بجائے اسے اپنے اصولوں اور حقائق کی بنیاد پر کام کرنے دیاجائے جہاں قانون کی خلاف ورزی ہوگی تو اس پر بالکل کارروائی ہونی چاہئے۔”فیک نیوز کا“ خبرکی اصل دنیا سے کوئی تعلق نہیں ہوتا جس کی بیشتر صحافی برادری مخالفت کرتی ہے امید ہے کہ صحافتی برادری اور سیاسی جماعتیں مل کر اس حوالے سے اپنا کردار ادا کرینگی جو ملک کے وسیع ترمفاد میں ہے۔