وزیراعظم پاکستان، چیئرمین سینیٹ، وزرائے اعلیٰ یہ وہ عہدے ہیں جو ریاست کے اہم ترین عہدوں میں شمارہوتے ہیں جن کے نیچے پورا نظام کام کرتا ہے جواپنی ٹیم کی مشاورت کے ذریعے ملک کے مستقبل کا فیصلہ کرتے ہیں دنیا کے دیگر ممالک کے ساتھ سفارتی، تجارتی، دفاعی سمیت اہم نوعیت کے تعلقات تک کے معاملات ان کے ہاتھوں میں ہوتے ہیں،مقدس ایوان کے سربراہان اپنے ممبران کے ذریعے ملکی معاملات کی سمت کے حوالے سے قانون سازی کرتے ہیں اس کے اثرات کیا پڑتے ہیں اور کس رخ جاتے ہیں۔
یہ بعد کی بات ہے کیونکہ بسا اوقات بعض قانون ایسے بھی ہوتے ہیں جن پر بہت زیادہ اعتراضات اٹھتے ہیں جس کے لیے اپوزیشن بینچ کے ارکان اسی پارلیمان کے اندر قانون اور آئین کے اندر رہتے ہوئے اپنے اختیارات کے ذریعے کردار ادا کرتے ہیں کہ انہیں ترامیم قبول ہیں کہ نہیں۔ اب بحث یہ نہیں کہ کیا۔
فیصلے کئے جاتے ہیں اور اس کے اثرات کیا پڑتے ہیں ۔ملک میں بدقسمتی سے جس طرح سے عدم اعتماد کی تحریک جمہوری عمل کے نام پر ایک ہتھیار کے طورپر استعمال ہورہی ہے اس کا تماشا بن چکا ہے۔ وزیراعظم، چیئرمین، وزرائے اعلیٰ کے خلاف اب تو عدم اعتماد کی تحریک عام سی بات ہوکر رہ گئی ہے اور سب سے بڑی جگ ہنسائی کی بات یہ ہے کہ ایوان کے سربراہان کی جماعتیں اور ان کی مخالف جماعتیں دونوں کو اپنے ارکان پر اتنا بھروسہ تک نہیں کہ وہ کس کے حق میں ووٹ دینگے۔ جب تحریک پیش کی جاتی ہے۔
تو دونوں فریقین اپنے ہی ارکان کو کمروں میں بند کردیتے ہیں ہوٹل کی بکنگ کی جاتی ہے کہ ہمارے ارکان مخالف کو ووٹ نہ دیں اس سے سیاسی جماعتوں کے ساتھ ارکان کی وفاداریاں اور سیاسی قیادت کی اپنے ارکان پر اعتماد کا اندازہ لگایا جاسکتاہے ۔کتنے افسوس کا مقام ہے کہ جن ارکان کو عوام ووٹ دے کر منتخب کرکے ایوان میں بھیجتے ہیں۔
کہ وہ ان کے مسائل حل کرینگے حلف کی پاسداری کرتے ہوئے ملک اور عوام کی خدمت میں اپنی تمام تر توانائی صرف کرینگے المیہ تو یہ ہے کہ جس طرح کا ماحول گزشتہ چند برسوں کے دوران دیکھا گیا ہے کہ کتنا بھروسہ سیاسی قیادت کو اپنے ارکان پر جبکہ ارکان اپنے قائدین کے فیصلوں سے کس قدر مطمئن ہیں یہ نیک شگون نہیں ہے اس سے سیاسی جماعتوں پر سے عوام کا اعتماد اٹھ جائے گا اوروہ یہ سوچیں گے کہ ہماری جماعتیں کس کے مفاد میں فیصلے کررہی ہیں جس میں گروہی وذاتی عنصر تو شامل نہیں ہے گوکہ یہ واضح ہے کہ بعض سیاستدان اپنے مفادات کو ترجیح دیتے ہوئے فیصلہ کرتے ہیں اور عوام کوبے یارومددگار چھوڑ دیتے ہیں۔
ساتھ ہی یہ مسئلہ اب کتنا سراٹھارہا ہے کہ پارلیمان کے اندر ہونے والی جنگ عدلیہ کی نظر ہوتی جارہی ہے اور اس میں بھی قانونی پیچیدگیاں نظرآرہی ہیں جب منحرف اراکین کے متعلق ایک فیصلہ سپریم کورٹ کی جانب سے آیا تھا تو اس وقت یہ کہاگیا کہ پارٹی سے منحرف ہونے والوں کے ووٹ شمار نہیں ہوسکتے اب اس میں تیکنیکی معاملات سامنے آرہے ہیں کچھ ماہر قانون اپنی رائے میں یہ بتارہے ہیں کہ سپریم کورٹ نے جس طرح سے منحرف ارکان کے ووٹ کو شمار نہ کرنے کے حوالے سے فیصلہ دیا تھا اس میں پارلیمانی لیڈر اور قیادت میں کوئی فرق نہیں کیونکہ پارلیمانی لیڈر بھی پارٹی قیادت کی مرضی سے لایاجاتا ہے۔
اس کی منشاء ومرضی کے بغیر یہ نہیں ہوسکتا ،اس لیے تمام تراختیارات پارٹی قیادت کے پاس ہی ہوتے ہیں جب تک ان کے خلاف خود ارکان پارٹی انتخابات کے اندر عدم اعتماد کا اظہار نہ کریں اور انہیں پارٹی قیادت سے نکالیں جس کا ایک الگ عمل ہوتا ہے جبکہ دوسری جانب سپریم کورٹ نے گزشتہ دنوں پنجاب اسمبلی کے ڈپٹی اسپیکر کی وزیراعلیٰ پنجاب کے چناؤ کے دوران ق لیگ کے ووٹوں کے مسترد کرنے کے حوالے سے الگ بات کی ہے۔ بہرحال یہ ہمارے ہاں اب معمول بنتا جارہا ہے مگر اس تمام عمل سے ملک شدید ترین بحرانات سے دوچار ہورہا ہے ایک طرف سیاسی عدم استحکام تو دوسری جانب معیشت کی ابتر صورتحال ہے۔